صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
77. بَابُ هَلْ يُخْرَجُ الْمَيِّتُ مِنَ الْقَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ:
77. باب: باب کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
(77) Chapter. Can the dead body be taken out of its grave and Lahd for some reason?
حدیث نمبر: 1352
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن ابن ابي نجيح، عن عطاء، عن جابر رضي الله عنه , قال:" دفن مع ابي رجل، فلم تطب نفسي حتى اخرجته، فجعلته في قبر على حدة".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" دُفِنَ مَعَ أَبِي رَجُلٌ، فَلَمْ تَطِبْ نَفْسِي حَتَّى أَخْرَجْتُهُ، فَجَعَلْتُهُ فِي قَبْرٍ عَلَى حِدَةٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے ابن ابی نجیح نے ‘ ان سے عطاء بن ابی رباح اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے باپ کے ساتھ ایک ہی قبر میں ایک اور صحابی (جابر رضی اللہ عنہ کے چچا) دفن تھے۔ لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہو رہا تھا۔ اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کر دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir: A man was buried along with my father and I did not like it till I took him (i.e. my father) out and buried him in a separate grave.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 435


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1352 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1352  
حدیث حاشیہ:
قبل ازیں حدیث میں تھا کہ حضرت جابر ؓ نے چھ ماہ بعد اپنے والد گرامی کی قبر کو کھولا اور انہیں وہاں سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جبکہ ایک روایت میں ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمرو اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو سیلاب نے کرید دیا تھا جبکہ وہ دونوں ایک ہی قبر میں تھے، انہیں منتقل کرنے کے لیے جب قبر کشائی کی گئی تو وہ ذرہ بھر بھی متاثر نہ ہوئے تھے، حتی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے جسم میں کوئی زخم تھا اور وفات کے وقت ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا، انہیں اسی طرح دفن کر دیا گیا تھا۔
جب قبر سے انہیں نکالا گیا اور ان کا ہاتھ اس جگہ سے ہٹایا گیا پھر اسے چھوڑا گیا تو وہ خود بخود اپنی پہلی جگہ پر پہنچ گیا۔
دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی کل فوت ہوئے ہیں، حالانکہ واقعہ اُحد اور قبر کشائی کے درمیان چھیالیس سال کا فاصلہ تھا۔
(الموطأ للإمام مالك، الجھاد، حدیث: 1044)
دونوں روایات میں ان کا ایک ہی قبر میں ہونے کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی اور عمرو بن جموح ؓ کی قبر کو دو مرتبہ کھولا ہو گا، ایک چھ ماہ بعد غالبا اس وقت رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہو گی کیونکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ حیات تھے۔
اس کے بعد ان کی قبروں کو قریب قریب رکھا گیا، کیونکہ ان دونوں میں بہت گہرا تعلق تھا، پھر سیلاب وغیرہ نے ان کی قبروں کو کرید کر ایک کر دیا۔
پھر حضرت امیر معاویہ ؓ نے اس جگہ پانی کا ایک چشمہ جاری کیا تو حضرت جابر ؓ کو دوبارہ تشویش لاحق ہوئی کہ مبادا ان کی لاشیں پانی میں بہہ جائیں، اس وجہ سے انہوں نے مدت دراز کے بعد دوبارہ قبر کشائی کی تو دیکھا کہ دونوں کے جسم بدستور اپنی حالت میں تھے۔
(فتح الباري: 276/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1352   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.