(موقوف) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الازرق بن قيس قال: كنا بالاهواز نقاتل الحرورية فبينا انا على جرف نهر إذا رجل يصلي وإذا لجام دابته بيده، فجعلت الدابة تنازعه وجعل يتبعها، قال شعبة هو ابو برزة الاسلمي، فجعل رجل من الخوارج , يقول: اللهم افعل بهذا الشيخ، فلما انصرف الشيخ قال: إني سمعت قولكم وإني غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ست غزوات او سبع غزوات وثماني وشهدت تيسيره، وإني إن كنت ان اراجع مع دابتي احب إلي من ان ادعها ترجع إلى مالفها فيشق علي".(موقوف) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: كُنَّا بِالْأَهْوَازِ نُقَاتِلُ الْحَرُورِيَّةَ فَبَيْنَا أَنَا عَلَى جُرُفِ نَهَرٍ إِذَا رَجُلٌ يُصَلِّي وَإِذَا لِجَامُ دَابَّتِهِ بِيَدِهِ، فَجَعَلَتِ الدَّابَّةُ تُنَازِعُهُ وَجَعَلَ يَتْبَعُهَا، قَالَ شُعْبَةُ هُوَ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيُّ، فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنْ الْخَوَارِجِ , يَقُولُ: اللَّهُمَّ افْعَلْ بِهَذَا الشَّيْخِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ الشَّيْخُ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ قَوْلَكُمْ وَإِنِّي غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ غَزَوَاتٍ أَوْ سَبْعَ غَزَوَاتٍ وَثَمَانِيَ وَشَهِدْتُ تَيْسِيرَهُ، وَإِنِّي إِنْ كُنْتُ أَنْ أُرَاجِعَ مَعَ دَابَّتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَدَعَهَا تَرْجِعُ إِلَى مَأْلَفِهَا فَيَشُقُّ عَلَيَّ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں (جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوبرزہ صحابی رضی اللہ عنہ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کرنے لگے۔ شعبہ نے کہا یہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کو چھوڑ دوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔
Narrated Al-Azraq bin Qais: We were at Al-Ahwaz fighting the Al-Haruriya (tribe). While I was at the bank of a river a man was praying and the reins of his animal were in his hands and the animal was struggling and he was following the animal. (Shu`ba, a sub-narrator, said that man was Abu Barza Al-Aslami). A man from the Khawarij said, "O Allah! Be harsh to this sheik." And when the sheik (Abu Barza) finished his prayer, he said, "I heard your remark. No doubt, I participated with Allah's Apostle in six or seven or eight holy battles and saw his leniency, and no doubt, I would rather retain my animal than let it return to its stable, as it would cause me much trouble. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1211
حدیث حاشیہ: (1) یہ واقعہ 65 ہجری میں پیش آیا جبکہ خوارج نے نافع بن ازرق کی سرکردگی میں اہل بصرہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ دریائے دجیل کے کنارے نماز عصر پڑھ رہے تھے اور دوران نماز میں ان کی سواری بدکی اور قبلے کی جانب چلنے لگی۔ حضرت ابو برزہ بھی اس کے ساتھ ہو لیے۔ آخر کار اسے ساتھ لے کر الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی تھی وگرنہ وہ الٹے پاؤں واپس آنے کا تکلف نہ کرتے۔ اس واقعے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس سلسلے میں سختی کرتے اور کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جانور کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اپنی نماز کو قطع نہ کیا جائے۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مال و اسباب کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز قطع کرنا جائز ہے۔ (فتح الباري: 106/3)(2) ابن بطال نے کہا ہے کہ دوران نماز میں اگر کسی کی سواری دوڑ جائے تو وہ نماز توڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے دوران نماز اپنے جانور کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کیا یا کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنویں کے کنارے کھڑا ہے اور اس میں گرنے کے قریب ہے یا کسی اندھے کے گڑھے میں گرنے کا اندیشہ محسوس کیا اور وہ مذکورہ امور کی مدافعت پر قادر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز توڑ کر ان کی حفاظت کرے۔ یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ ایسا کریں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی مشاہدہ نہ کیا ہو۔ ابن تین نے کہا ہے کہ اگر کوئی دوران نماز میں گراں قدر چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر معمولی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز میں مصروف رہنا بہتر ہے۔ (عمدة القاري: 615/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1211