سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات سنے، اسے اچھی طرح محفوظ کر ے، پھر ان لوگوں تک پہنچادے جو اسے براہ راست نہیں سن سکے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فقہ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حاملین فقیہ اس شخص تک بات پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا۔ (١) عمل میں اخلاص، (٢) حکمرانوں کے لئے خیر خواہی (٣) جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا کیونکہ جماعت کی دعا اسے پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وله إسنادان ضعيفان، وفي الإسناد الأول: لم يصرح ابن إسحاق بسماعه من الزهري، وفي الإسناد الثاني: وإن كان صرح بالسماع من شيخه عمرو بن أبى عمرو إلا أن فى طريقه عبدالرحمن بن الحويرث، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابيه ، قال: اخبرني محمد بن جبير ، ان اباه جبير بن مطعم اخبره، ان امراة اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلمته في شيء، فامرها بامر، فقالت: ارايت يا رسول الله إن لم اجدك؟، قال:" إن لم تجديني فاتي ابا بكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟، قَالَ:" إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کسی معاملے میں کوئی بات کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دے دیا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ!! یہ بتایئے کہ اگر آپ نہ ملیں تو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب ، اخبرني عمر بن محمد بن جبير بن مطعم ، ان محمد بن جبير بن مطعم ، قال: اخبرني جبير بن مطعم ، انه بينا هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه الناس مقبلا من حنين، علقت رسول الله صلى الله عليه وسلم الاعراب يسالونه حتى اضطروه إلى سمرة، فخطفت رداءه، فوقف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" اعطوني ردائي، فلو كان عدد هذه العضاه نعما لقسمته، ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذابا ولا جبانا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مُقْبِلًا مِنْ حُنَيْنٍ، عَلِقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ، فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَعْطُونِي رِدَائِي، فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا وَلَا كَذَّابًا وَلَا جَبَانًا".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، دوسرے لوگ بھی ہمراہ تھے کہ کچھ دیہاتیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں روک کر مال غنیمت مانگنا شروع کر دیا، حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کر دیا، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر بھی کسی نے کھینچ لی، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور فرمایا کہ مجھے میری چادر واپس دے دو، اگر ان کانٹوں کی تعداد کے برابر بھی میرے پاس نعمتیں ہوں تو میں تمہارے درمیان ہی انہیں تقسیم کر دوں اور تم مجھے پھر بھی بخیل، جھوٹا یا بزدل نہ پاؤں گے۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے زمانے سے پہلے دیکھا ہے، آپ عرفات میں اپنے اونٹ پر لوگوں کے ساتھ وقوف کئے ہوئے تھے اور انہی کے ساتھ واپس جارہے تھے، یہ بھی اللہ کی توفیق سے تھا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: تمہارے پاس بادلوں کے ٹکڑوں کی طرح اہل زمین میں سب سے بہتر لوگ یعنی اہل یمن آرہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا وہ ہم سے بھی بہتر ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں آہستہ سے فرمایا: سوائے تمہارے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وقد اختلف عليه فيه
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا شعبة ، قال النعمان بن سالم : اخبرني عن رجل سماه، عن جبير بن مطعم، قال: اراه قد سمعه من جبير بن مطعم ، قال: قلت: يا رسول الله، إن الناس يزعمون انه ليس لنا اجور بمكة، قال: فاحسبه، قال:" كذبوا، لتاتينكم اجوركم ولو كنتم في جحر ثعلب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ : أَخْبَرَنِي عَنْ رَجُلٍ سَمَّاهُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: أُرَاهُ قَدْ سَمِعَهُ مِنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا أُجُورٌ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَأَحْسَبُهُ، قَالَ:" كَذَبُوا، لَتَأْتِيَنَّكُمْ أُجُورُكُمْ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي جُحْرِ ثَعْلَبٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ مکر مہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غلط کہتے ہیں، تمہیں تمہارا اجر وثواب ضرور ملے گا خواہ تم لومڑی کے بل میں ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام الراوي عن جبير بن مطعم
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں نے نوافل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ اللہ اکبر کبیرا، تین مرتبہ والحمدللہ کثیرا اور تین مرتبہ سبحان اللہ بکر ۃ واصیلا اور یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں شیطان مردوں کے ہمز، نفث اور نفخ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! ہمز، نفث اور نفخ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمز سے مراد وہ موت ہے جو ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نفخ سے مراد تکبر ہے اور نفث سے مراد شعر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عباد بن عاصم هو عاصم العنزي على الراجح، وعاصم العنزي مجهول
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتنہ انگیزی کے کسی معاہدے کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں، البتہ نیکی کے کاموں کے لئے معاہدے کی تو اسلام نے زیادہ ہی تاکید کی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، ومحمد بن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت بعض إخوتي، عن ابي ، عن جبير بن مطعم ، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فدى بدر، قال ابن جعفر: في فدى المشركين وما اسلم يومئذ، فدخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي المغرب، فقرا بالطور"، فكانما صدع عن قلبي حين سمعت القرآن، قال ابن جعفر: فكانما صدع قلبي حيث سمعت القرآن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ إِخْوَتِي، عَنْ أَبِي ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِدَى بَدْرٍ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فِي فِدَى الْمُشْرِكِينَ وَمَا أَسْلَمَ يَوْمَئِذٍ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ بِالطُّورِ"، فَكَأَنَّمَا صُدِعَ عَنْ قَلْبِي حِينَ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فَكَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِي حَيْثُ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت طور کی تلاوت شروع فرما دی، جب قرآن کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تو میرا دل لرزنے لگا۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 4854، م: 463 دون قوله: فكأنما صدع عن قلبي حين سمعت القرآن، وهذا إسناد ضعيف لإبهام أخي سعد بن إبراهيم الذى سمع منه هذا الحديث
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قطع تعلقی کرنے والا کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5984، م: 2556، سفيان بن حسين ضعيف فى روايته عن الزهري، لكنه توبع