(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا شيبان ، عن اشعث ، عن الاسود بن هلال ، عن رجل من قومه، قال: كان يقول في خلافة عمر بن الخطاب: لا يموت عثمان حتى يستخلف، قلنا: من اين تعلم ذلك؟، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" رايت الليلة في المنام كان ثلاثة من اصحابي وزنوا، فوزن ابو بكر، فوزن، ثم وزن عمر، فوزن، ثم وزن عثمان، فنقص صاحبنا وهو صالح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: كَانَ يَقُولُ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: لَا يَمُوتُ عُثْمَانُ حَتَّى يُسْتَخْلَفَ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ ذَلِكَ؟، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ ثَلَاثَةً مِنْ أَصْحَابِي وُزِنُوا، فَوُزِنَ أَبُو بَكْرٍ، فَوَزَنَ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ، فَوَزَنَ، ثُمَّ وُزِنَ عُثْمَانُ، فَنَقَصَ صَاحِبُنَا وَهُوَ صَالِحٌ".
اسود بن ہلال اپنی قوم کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ جو سیدنا عمر کے دور خلافت میں کہا کرتا تھا سیدنا عثمان غنی اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک خلیفہ نہیں بن جاتے، ہم اس سے پوچھتے کہ تمہیں یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟ تو وہ جواب دیتا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آج رت میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے تین صحابہ کا وزن کیا گیا ہے، چنانچہ سیدنا ابوبکر کا وزن کیا گیا تو ان کا پلڑا جھک گیا، پھر سیدنا عمر کا وزن کیا گیا تو ان کا پلڑا بھی جھک گیا، پھر سیدنا عثمان کا وزن کیا گیا تو ہمارے ساتھی کا وزن کم رہا اور وہ نیک آدمی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا المسعودي ، عن مهاجر ابي الحسن ، عن شيخ ادرك النبي صلى الله عليه وسلم، قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فمر برجل يقرا: قل يايها الكافرون، قال:" اما هذا فقد برئ من الشرك"، قال: وإذا آخر يقرا: قل هو الله احد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بها وجبت له الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ شَيْخٍ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَمَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ: قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ، قَالَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ بَرِئَ مِنَ الشِّرْكِ"، قَالَ: وَإِذَا آخَرُ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ".
ایک شیخ سے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک آدمی پر ہوا جو سورت کافرون کی تلاوت کر رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو شرک سے بری ہو گیا، پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورت اخلاص کی تلاوت کر رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی برکت سے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، المسعودي مختلط، وسماع أبى النضر منه بعد اختلاطه، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي ، قال: حدثنا ابن جعفر ، عن عمرو ابن شعيب ، عن ابنة كردمة ، عن ابيها ، انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نذرت ان انحر ثلاثة من إبلي، فقال:" إن كان على جمع من جمع الجاهلية، او على عيد من اعياد الجاهلية، او على وثن، فلا، وإن كان على غير ذلك فاقض نذرك"، قال: يا رسول الله، إن على ام هذه الجارية مشيا، افامشي عنها؟، قال:" نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ ، عَنِ ابْنَةِ كَرْدَمَةَ ، عَنْ أَبِيهَا ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ ثَلَاثَةً مِنْ إِبِلِي، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ عَلَى جَمْعٍ مِنْ جَمْعِ الْجَاهِلِيَّةِ، أَوْ عَلَى عِيدٍ مِنْ أَعْيَادِ الْجَاهِلِيَّةِ، أَوْ عَلَى وَثَنٍ، فَلَا، وَإِنْ كَانَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَاقْضِ نَذْرَكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَلَى أُمِّ هَذِهِ الْجَارِيَةِ مَشْيًا، أَفَأَمْشِي عَنْهَا؟، قَالَ:" نَعَمْ".
سیدنا کر دم بن سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منت کا حکم پوچھا: جو تین اونٹ ذبح کرنے کے حوالے سے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں مانی تھی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے وہ منت اگر کسی بت یا پتھر کے لئے مانی تھی تو پھر نہیں اور اگر اللہ کے لئے مانی تو اسے پورا کر و، پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! اس بچی کی ماں پر پیدل چلنا واجب ہے، کیا میں اس کی طرف سے چل سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عمرو بن شيعب لم يسمع من ابنة كردمة
یزید بن نمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات ایک اپاہج آدمی سے ہوئی میں نے اس کی وجہ اس سے پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میں اپنے گدھے پر سوار ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گزر گیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے ہماری نماز توڑ دی، اللہ اس کے پاؤں توڑ دے، اس وقت سے میں اپاہج ہو گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولي يزيد، ومولاه يزيد بن نمران مستور
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا ابو معاوية يعني شيبان ، عن ليث ، عن شهر ، قال: حدثني الانصاري ، صاحب بدن النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعثه، قال:" رجعت؟"، فقلت: نعم، يا رسول الله، ما تامرني بما عطب منها؟، قال:" انحرها، ثم اصبغ نعلها في دمها، ثم ضعها على صفحتها، او على جنبها، ولا تاكل منها انت ولا احد من اهل رفقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي شَيْبَانَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ شَهْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَنْصَارِيُّ ، صَاحِبُ بُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ، قَالَ:" رَجَعْتُ؟"، فَقُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَأْمُرُنِي بِمَا عَطِبَ مِنْهَا؟، قَالَ:" انْحَرْهَا، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ ضَعْهَا عَلَى صَفْحَتِهَا، أَوْ عَلَى جَنْبِهَا، وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ".
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ جو اونٹنی کی دیکھ بھال پر مامور تھے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہیں بھیجا، میں کچھ دور جا کر واپس آگیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!! اگر کوئی اونٹ مرنے والا ہو جائے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ذبح کر لینا، پھر اس کے نعلوں کو خون میں تر بتر کر کے اس کی پیشانی یا پہلو پر رکھ دینا اور اس میں سے نہ تم کھانا اور نہ ہی تمہارا کوئی رفیق کھائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
بنت ابوحکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعض اوقات انسان جنت کے اتنا قریب پہنچ جاتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن پھر وہ کوئی ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ جنت سے اتنا دور چلا جاتا ہے مثلا مکہ مکر مہ کا صنعاء سے بھی زیادہ دور کا فاصلہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن
ایک خاتون صحابیہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کی بھیجی ہوئی کسی چیز کو خواہ وہ بکری کا جلا ہوا کھر ہی ہو، حقیر نہ سمجھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن معاذ
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، وعبد الرزاق ، قالا: اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني حسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن رجل ادرك النبي صلى الله عليه وسلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إنما الطواف صلاة، فإذا طفتم، فاقلوا الكلام"، ولم يرفعه ابن بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلَاةٌ، فَإِذَا طُفْتُمْ، فَأَقِلُّوا الْكَلَامَ"، وَلَمْ يَرْفَعْهُ ابْنُ بَكْرٍ.
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طواف بھی نماز ہی کی طرح ہوتا ہے، اس لئے جب تم طواف کیا کر و تو گفتگو کم کیا کر و۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ولا يضر توقف محمد بن بكر عن رفعه، فقد رفعه أئمة ثقات، والمبهم فيه هو: ابن عباس، وعلى تقدير أن يكون غيره فلا يضره إبهام الصحابة
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن الاشعث بن سليم ، عن ابيه ، عن رجل من بني يربوع، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته وهو يكلم الناس يقول:" يد المعطي العليا، امك واباك، واختك واخاك، ثم ادناك فادناك"، قال: فقال رجل: يا رسول الله، هؤلاء بنو ثعلبة بن يربوع الذين اصابوا فلانا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا لا تجني نفس على اخرى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يُكَلِّمُ النَّاسَ يَقُولُ:" يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، أُمَّكَ وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ فَأَدْنَاكَ"، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ بن يَرْبُوع الَّذِينَ أَصَابُوا فُلَانًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى".
بنویربوع کے ایک صحابی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو لوگوں سے گفتگو کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، اپنی ماں، باپ، بہن، بھائی اور درجہ بدرجہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کیا کر و، ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! یہ بنوثعلبہ بن یربوع ہیں، انہوں نے فلاں آدمی کو قتل کر دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے کے جرم کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔