سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عشاء پڑھ لیتے تو چار رکعت پڑھتے اور ایک سجدہ کے ساتھ وتر پڑھتے پھر سو رہتے اس کے بعد رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، نافع بن ثابت لم يدرك جده عبدالله
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، قال: حدثنا عبد الله بن المبارك ، قال: حدثنا مصعب بن ثابت ، قال: حدثنا عامر بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، قال: قدمت قتيلة ابنة عبد العزى بن عبد اسعد من بني مالك بن حسل على ابنتها اسماء ابنة ابي بكر بهدايا، ضباب واقط وسمن وهي مشركة، فابت اسماء ان تقبل هديتها وتدخلها بيتها، فسالت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين سورة الممتحنة آية 8 إلى آخر الآية،" فامرها ان تقبل هديتها، وان تدخلها بيتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَدِمَتْ قُتَيْلَةُ ابْنَةُ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ عَبْدِ أَسْعَدَ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ حَسَلٍ عَلَى ابْنَتِهَا أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ بِهَدَايَا، ضِبَابٍ وَأَقِطٍ وَسَمْنٍ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَأَبَتْ أَسْمَاءُ أَنْ تَقْبَلَ هَدِيَّتَهَا وَتُدْخِلَهَا بَيْتَهَا، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ سورة الممتحنة آية 8 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ،" فَأَمَرَهَا أَنْ تَقْبَلَ هَدِيَّتَهَا، وَأَنْ تُدْخِلَهَا بَيْتَهَا".
سیدنا ابن زیبر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ قتیلہ بنت عبدالعزی اپنی بیٹی سیدنا اسماء بنت ابی بکر کے پاس حالت کفر و شرک میں کچھ ہدایا لے کر مثلا گوہ، پنیر اور گھی لے کر آئی سیدنا اسماء نے اس کے تحائف قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں اپنی والدہ کا حالت شرک میں گھر میں داخل ہو نا بھی اچھا نہ لگا سیدنا عائشہ نے یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو اللہ نے یہ آیت نازل کر دی کہ اللہ تمہیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال نہیں کیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی والدہ کا ہدیہ قبول کر لینے اور انہیں اپنے گھر میں بلالینے کا حکم دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، عن ابن ابي مليكة ، عن ابن الزبير ، قال: إن الذي قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت متخذا خليلا سوى الله عز وجل حتى القاه لاتخذت ابا بكر" جعل الجد ابا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: إِنَّ الَّذِي قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا سِوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَلْقَاهُ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ" جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا.
سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ وہ ذات جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: تھا کہ اگر میں اپنے رب کے علاوہ اس امت میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا انہوں نے دادا کو باپ ہی قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن جريج مدلس وقد عنعن
سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حواری ہوتا ہے میرے حواری میرے پھوپھی زاد زبیر ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على هشام بن عروة
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، قال: حدثنا ليث بن سعد ، قال: وحدثني ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الله بن الزبير ، قال: خاصم رجل من الانصار الزبير إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري للزبير: سرح الماء، فابى، فكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسق يا زبير، ثم ارسل إلى جارك"، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك؟ فتلون وجهه، ثم قال:" احبس الماء حتى يبلغ إلى الجدر"، قال الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم سورة النساء آية 65 إلى قوله ويسلموا تسليما سورة النساء آية 65.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: خَاصَمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ الزُّبَيْرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ لِلزُّبَيْرِ: سَرِّحْ الْمَاءَ، فَأَبَى، فَكَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ"، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ:" احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الْجُدُرِ"، قَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 إِلَى قَوْلِهِ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورة النساء آية 65.
سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا زبیر سے ایک انصاری کا جھگڑا ہو گیا جو پانی کی اس نالی کے حوالے سے تھا جس سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے انصاری کا کہنا تھا کہ پانی چھوڑ دو لیکن سیدنا زبیر پہلے اپنے باغ سیراب کئے بغیر پانی چھوڑنے پر رضی نہ تھے انصاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر اپنے کھیت کو پانی لگا کر اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو اس پر انصاری کو غصہ آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کے پھوپھی زاد ہیں ناں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور یہ سن کر متغیر ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ اس وقت تک پانی روکے رکھو جب تک ٹخنوں کے برابر پانی نہ آ جائے سیدنا زبیر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں سمجھتاہوں کہ یہ آیت اسی واقعے کے متعلق نازل ہوئی کہ آپ کے رب کی قسم یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں آپ کو ثالث نہ بنالیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، قال: حدثنا حماد يعني ابن زيد ، قال: حدثنا حبيب المعلم ، عن عطاء ، عن عبد الله بن الزبير ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلاة في مسجدي هذا افضل من الف صلاة فيما سواه من المساجد إلا المسجد الحرام، وصلاة في المسجد الحرام افضل من مائة صلاة في هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ صَلَاةٍ فِي هَذَا".
سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام کو نکال کر دیگر تمام مساجد کی نسبت میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا ایک ہزار درجہ افضل ہے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب اس سے ایک لاکھ درجے زائد بہتر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن زيد ، قال عفان في حديثه، حدثنا ثابت البناني ، وقال يونس، عن ثابت، قال: سمعت ابن الزبير ، قال عفان: يخطبنا، وقال يونس: وهو يخطب، يقول: قال محمد صلى الله عليه وسلم:" من لبس الحرير في الدنيا، لم يلبسه في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، وَقَالَ يُونُسُ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ ، قَالَ عَفَّانُ: يَخْطُبُنَا، وَقَالَ يُونُسُ: وَهُوَ يَخْطُبُ، يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ".
سیدنا ابن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔