سیدنا معقل بن سنان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ماہ رمضان کی اٹھارویں رات کو سینگی لگارہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرنے مجھے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد متقطع، الحسن البصري لم يسمع من معقل بن سنان، وقد اختلف فيه على الحسن، فقد رواه مرة عن معقل بن سنان، وأخرى عن أبى هريرة، وثالثة عن على أمير المؤمنين، وعن غيرهم أيضا
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عاصم ، قال: خالد الحذاء اخبرني، عن ابي قلابة ، عن عمرو بن سلمة ، قال: كان تاتينا الركبان من قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنستقرئهم، فيحدثونا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ليؤمكم اكثركم قرآنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ: خَالِدٌ الْحَذَّاءُ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَةَ ، قَالَ: كَانَ تَأْتِينَا الرُّكْبَانُ مِنْ قِبَلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَسْتَقْرِئُهُمْ، فَيُحَدِّثُونَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا".
سیدنا عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے کچھ سوار آتے تھے ہم ان سے قرآن پڑھتے تھے وہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جو شخص زیادہ قرآن جانتا ہواسے تمہاری امامت کر نی چاہیے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4302 ، وهذا اسناد ضعيف لضعف بن عاصم
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى ، قال: اخبرني مالك ، عن سمي ، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر الناس بالفطر عام الفتح، وقال:" تقووا لعدوكم" , وصام رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو بكر: قال الذي حدثني: لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج يصب على راسه الماء من العطش او من الحر، ثم قيل: يا رسول الله، إن طائفة من الناس قد صاموا حين صمت، فلما كان بالكديد دعا بقدح، فشرب، فافطر الناس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ بِالْفِطْرِ عَامَ الْفَتْحِ، وَقَالَ:" تَقَوَّوْا لِعَدُوِّكُمْ" , وَصَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ الَّذِي حَدَّثَنِي: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ مِنَ الْعَطَشِ أَوْ مِنَ الْحَرِّ، ثُمَّ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ طَائِفَةً مِنَ النَّاسِ قَدْ صَامُوا حِينَ صُمْتَ، فَلَمَّا كَانَ بِالْكَدِيدِ دَعَا بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ، فَأَفْطَرَ النَّاسُ.
ایک صحابی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ترک صیام کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے دشمن کے لئے قوت حاصل کر و لیکن خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ لیا راوی کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام عرج میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا ہے اسی دوران کسی شخص نے بتایا کہ یا رسول اللہ! جب لوگوں نے آپ کو روزہ رکھے ہوئے دیکھا تو روزہ رکھ لیا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام کدید پہنچ کر پانی کا پیالہ منگوایا اور اسے نوش فرمالیا اور لوگوں نے بھی روزہ افطار کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله الزبيري ، حدثنا سعد يعني ابن اوس العبسي ، عن بلال العبسي ، قال: اخبرنا عمران بن حصين الضبي ، انه اتى البصرة وبها عبد الله بن عباس اميرا، فإذا هو برجل قائم في ظل القصر يقول: صدق الله ورسوله، صدق الله ورسوله، لا يزيد على ذلك، فدنوت منه شيئا، فقلت له: لقد اكثرت من قولك صدق الله ورسوله؟ فقال: اما والله لئن شئت لاخبرتك؟ فقلت: اجل، فقال: اجلس إذا، فقال: إني اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالمدينة في زمان كذا وكذا، وقد كان شيخان للحي قد انطلق ابن لهما، فلحق به، فقالا: إنك قادم المدينة، وإن ابنا لنا قد لحق بهذا الرجل، فاته فاطلبه منه، فإن ابى إلا الافتداء فافتده , فاتيت المدينة، فدخلت على نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا نبي الله، إن شيخين للحي امراني ان اطلب ابنا لهما عندك , فقال:" تعرفه؟" , فقال: اعرف نسبه , فدعا الغلام، فجاء، فقال:" هو ذا، فات به ابويه" , فقلت: الفداء يا نبي الله , قال:" إنه لا يصلح لنا آل محمد ان ناكل ثمن احد من ولد إسماعيل"، ثم ضرب على كتفي، ثم قال:" لا اخشى على قريش إلا انفسها"، قلت: وما لهم يا نبي الله؟ قال:" إن طال بك العمر رايتهم هاهنا، حتى ترى الناس بينهما كالغنم بين حوضين، مرة إلى هذا، ومرة إلى هذا"، فانا ارى ناسا يستاذنون على ابن عباس، رايتهم العام يستاذنون على معاوية، فذكرت ما قال النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَوْسٍ الْعَبْسِيَّ ، عَنْ بِلَالٍ الْعَبْسِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الضَّبِّيُّ ، أَنَّهُ أَتَى الْبَصْرَةَ وَبِهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَمِيرًا، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فِي ظِلِّ الْقَصْرِ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ شَيْئًا، فَقُلْتُ لَهُ: لَقَدْ أَكْثَرْتَ مِنْ قَوْلِكَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟ فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ شِئْتَ لَأَخْبَرْتُكَ؟ فَقُلْتُ: أَجَلْ، فَقَالَ: اجْلِسْ إِذًا، فَقَالَ: إِنِّي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ كَانَ شَيْخَانِ لِلْحَيِّ قَدْ انْطَلَقَ ابْنٌ لَهُمَا، فَلَحِقَ بِهِ، فَقَالَا: إِنَّكَ قَادِمٌ الْمَدِينَةَ، وَإِنَّ ابْنًا لَنَا قَدْ لَحِقَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأْتِهِ فَاطْلُبْهُ مِنْهُ، فَإِنْ أَبَى إِلَّا الِافْتِدَاءَ فَافْتَدِهِ , فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ شَيْخَيْنِ لِلْحَيِّ أَمَرَانِي أَنْ أَطْلُبَ ابْنًا لَهُمَا عِنْدَكَ , فَقَالَ:" تَعْرِفُهُ؟" , فَقَالَ: أَعْرِفُ نَسَبَهُ , فَدَعَا الْغُلَامَ، فَجَاءَ، فَقَالَ:" هُوَ ذَا، فَأْتِ بِهِ أَبَوَيْهِ" , فَقُلْتُ: الْفِدَاءَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَنَا آلُ مُحَمَّدٍ أَنْ نَأْكُلَ ثَمَنَ أَحَدٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ"، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ:" لَا أَخْشَى عَلَى قُرَيْشٍ إِلَّا أَنْفُسَهَا"، قُلْتُ: وَمَا لَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِنْ طَالَ بِكَ الْعُمُرُ رَأَيْتَهُمْ هَاهُنَا، حَتَّى تَرَى النَّاسَ بَيْنَهُمَا كَالْغَنَمِ بَيْنَ حَوْضَيْنِ، مَرَّةً إِلَى هَذَا، وَمَرَّةً إِلَى هَذَا"، فَأَنَا أَرَى نَاسًا يَسْتَأْذِنُونَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، رَأَيْتُهُمْ الْعَامَ يَسْتَأْذِنُونَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَذَكَرْتُ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمران بن حصین ضبی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ بصرہ آئے اس وقت وہاں کے گورنر سیدنا عبداللہ بن عباس تھے وہاں ایک آدمی محل کے سائے میں کھڑا ہوا بار بار یہی کہے جارہا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: وہ اس سے آگے نہیں بڑھتا تھا میں اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا کہ آپ نے اتنی زیادہ مرتبہ کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: اس نے جواب دیا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں میں نے کہا ضرور اس نے کہا پھر بیٹھ جاؤ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فلاں فلاں وقت حاضر ہوا جبکہ آپ مدینہ منورہ میں تھے۔ اس وقت ہمارے قبیلے کے دو سراداروں کا ایک بچہ نکل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا وہ دونوں مجھ سے کہنے لگے کہ وہاں ہمارا ایک بچہ بھی اس آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا ہے تم اس آدمی کے پاس جا کر اس سے ہمارا بچہ واپس دینے کی درخواست کرنا اگر وہ فدیہ لئے بغیر نہ مانے تو فدیہ بھی دیدینا چنانچہ میں مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قبیلے کے دو سردراوں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ ان کا جو بچہ آپ کے پاس آگیا ہے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اس بچے کو جانتے ہو میں نے عرض کیا: کہ میں اس کا نسب نامہ جانتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو بلایا وہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہی بچہ ہے تم اسے اس کے والدین کے پاس لے جا سکتے ہو۔ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فدیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم آل محمد کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اولاد اسماعیل کی قیمت کھاتے پھریں پھر میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ مجھے قریش کے متعلق خود انہی سے خطرہ ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم انہیں یہاں دیکھو گے اور عام لوگوں کو ان کے درمیان پاؤ گے جیسے دو حوضوں کے درمیان بکریاں ہوں جو کبھی ادھر جاتی ہیں اور کبھی ادھر جاتی ہیں چنانچہ میں دیکھ رہاہوں کہ کچھ لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں میں نے اسی سال سیدنا معاویہ سے ملنے کی اجازت مانگتے ہوئے دیکھا تھا اس وقت مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آگیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، حدثنا عبد الله يعني ابن مبارك ، قال: اخبرنا سعيد بن يزيد وهو ابو شجاع ، قال: سمعت الحارث بن يزيد الحضرمي يحدث , عن علي بن رباح ، عن ناشرة بن سمي اليزني ، قال: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه يقول في يوم الجابية وهو يخطب الناس: إن الله عز وجل جعلني خازنا لهذا المال، وقاسمه له، ثم قال: بل الله يقسمه، وانا بادئ باهل النبي صلى الله عليه وسلم، ثم اشرفهم , ففرض لازواج النبي صلى الله عليه وسلم عشرة آلاف إلا جويرية وصفية وميمونة، فقالت عائشة : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يعدل بيننا"، فعدل بينهن عمر , ثم قال: إني بادئ باصحابي المهاجرين الاولين، فإنا اخرجنا من ديارنا ظلما وعدوانا، ثم اشرفهم، ففرض لاصحاب بدر منهم خمسة آلاف، ولمن كان شهد بدرا من الانصار اربعة آلاف، ولمن شهد احدا ثلاثة آلاف، قال: ومن اسرع في الهجرة اسرع به العطاء، ومن ابطا في الهجرة ابطا به العطاء، فلا يلومن رجل إلا مناخ راحلته , وإني اعتذر إليكم من خالد بن الوليد إني امرته ان يحبس هذا المال على ضعفة المهاجرين، فاعطاه ذا الباس، وذا الشرف، وذا اللسانة، فنزعته، وامرت ابا عبيدة بن الجراح , فقال ابو عمرو بن حفص بن المغيرة : والله ما اعذرت يا عمر بن الخطاب، لقد نزعت عاملا استعمله رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغمدت سيفا سله رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووضعت لواء نصبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولقد قطعت الرحم، وحسدت ابن العم , فقال عمر بن الخطاب: إنك قريب القرابة، حديث السن، مغضب من ابن عمك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ وَهُوَ أَبُو شُجَاعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ يَزِيدَ الْحَضْرَمِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ نَاشِرَةَ بْنِ سُمَيٍّ الْيَزَنِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَقُولُ فِي يَوْمِ الْجَابِيَةِ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِي خَازِنًا لِهَذَا الْمَالِ، وَقَاسِمَهُ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: بَلْ اللَّهُ يَقْسِمُهُ، وَأَنَا بَادِئٌ بِأَهْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْرَفِهِمْ , فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَةَ آلَافٍ إِلَّا جُوَيْرِيَةَ وَصَفِيَّةَ ومَيْمُونَةَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَعْدِلُ بَيْنَنَا"، فَعَدَلَ بَيْنَهُنَّ عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ: إِنِّي بَادِئٌ بِأَصْحَابِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا، ثُمَّ أَشْرَفِهِمْ، فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْهُمْ خَمْسَةَ آلَافٍ، وَلِمَنْ كَانَ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَةَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَهِدَ أُحُدًا ثَلَاثَةَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِي الْهِجْرَةِ أَسْرَعَ بِهِ الْعَطَاءُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِي الْهِجْرَةِ أَبْطَأَ بِهِ الْعَطَاءُ، فَلَا يَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِهِ , وَإِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكُمْ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ إِنِّي أَمَرْتُهُ أَنْ يَحْبِسَ هَذَا الْمَالَ عَلَى ضَعَفَةِ الْمُهَاجِرِينَ، فَأَعْطَاه ذَا الْبَأْسِ، وَذَا الشَّرَفِ، وَذَا اللَّسَانَةِ، فَنَزَعْتُهُ، وَأَمَّرْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ , فَقَالَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ : وَاللَّهِ مَا أَعْذَرْتَ يَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ، لَقَدْ نَزَعْتَ عَامِلًا اسْتَعْمَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَمَدْتَ سَيْفًا سَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْتَ لِوَاءً نَصَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ قَطَعْتَ الرَّحِمَ، وَحَسَدْتَ ابْنَ الْعَمِّ , فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّكَ قَرِيبُ الْقَرَابَةِ، حَدِيثُ السِّنِّ، مُغْضَبٌ مِنَ ابْنِ عَمِّكَ.
ناشرہ کہتے ہیں کہ میں نے جابیہ میں سیدنا عمر کے دوران خطبہ لوگوں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے مجھے مال کا صرف خزانچی اور تقسیم کنندہ بنایا ہے پھر فرمایا کہ بلکہ اللہ ہی اسے تقسیم کرنے والا ہے البتہ میں اس کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ سے کر وں گا پھر درجہ بدرجہ معززین کو دوں گا چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے سیدنا جو یریریہ صفیہ اور سیدنا میمونہ کے سواسب کے لئے دس دس ہزار درہم مقرر کئے، سیدنا عائشہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے درمیان انصاف سے کام لیتے تھے چنانچہ سیدنا عمر نے ان کا حصہ بھی برابر کر دیا۔ پھر فرمایا: میں صحابہ میں اپنے مہاجرین اولین ساتھیوں سے آغاز کر وں گا کیونکہ ہم لوگوں کو اپنے وطن سے ظلما نکالا گیا تھا پھر ان میں سے جو زیادہ معزز ہوں گے چنانچہ انہوں نے ان میں سے اصحاب بدر کے لئے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کئے اور غزوہ بدر میں شریک ہو نے والے انصاری صحابہ کے لئے چار چار ہزار درہم مقرر کئے اور شرکاء احد کے لئے تین تین ہزار مقرر کئے اور فرمایا: جس نے ہجرت میں جلدی کی میں اسے عطا کرنے میں جلدی کر وں گا اور جس نے ہجرت میں سستی کی میں اسے عطا کرنے میں سستی کر وں گا اس لئے اگر کوئی شخص ملامت کرتا ہے تو صرف اپنی سواری کو ملامت کر ے اور میں تمہارے سامنے خالد بن ولید کے حوالے سے معذرت کرتا ہوں دراصل میں نے انہیں یہ حکم دیا تھا کہ یہ مال صرف کمزور مہاجرین پر خرچ کر یں لیکن انہوں نے جنگجوؤں، معزز اور صاحب زبان لوگوں کو یہ مال دینا شروع کر دیا اس لئے میں نے ان سے یہ عہدہ واپس لے کر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح کو دے دیا۔ اس پر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کہنے لگے کہ اے عمر واللہ میں تمہارا یہ عذر قبول نہیں کرتا آپ نے ایک ایسے گورنر کو معزول کیا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا آپ نے ایک ایسی تلوار کو نیام میں ڈال لیا جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونتا تھا آپ نے ایک ایساجھنڈا سرنگوں کر دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گاڑا تھا آپ نے قطع رحمی کی اور اپنے چچا زاد سے حسد کیا سیدنا عمر نے یہ سب سن کر فرمایا کہ تمہاری ان کے ساتھ زیادہ قریب رشتہ داری ہے یوں بھی تم نوعمر ہوں اور تمہیں اپنے چچا زاد بھائی کے حوالے سے زیادہ غصہ آیا ہوا ہے۔
سیدنا معبد بن ہو ذہ جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اثمد نامی ٹھنڈاسرمہ لگایا کر و کیونکہ یہ بینائی کو تیز کرتا ہے اور پلکوں کے بال اگاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن النعمان ضعيف، ووالده النعمان مجهول
سیدنا سلمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے گھر کے پاس سے گزرے جس کے صحن میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پینے کے لئے پانی مانگا تو وہ کہنے لگے کہ یہ مردہ جانور کی کھال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دباغت کھال کی پاکیزگی ہو تی ہے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة حال جون بن قتادة
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا الفضل بن دلهم ، عن الحسن ، عن قبيصة بن حريث ، عن سلمة بن المحبق ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذوا عني خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا، البكر بالبكر جلد مائة، ونفي سنة، والثيب بالثيب جلد مائة والرجم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دَلْهَمٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبِّقِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا عَنِّي خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ".
سیدنا سلمہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتہ فرمایا: مجھ سے یہ مسئلہ معلوم کر لو اور حاصل کر و اللہ نے بدکاری کا ارتکاب کرنے والی عورتوں کا حکم متعین کر دیا کنوارے کو کنواری کے ساتھ بدکاری کرنے پر سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلاوطن کر دیا جائے اور شادی شدہ کو شادی شدہ کے ساتھ ایسا کرنے پر سو کوڑے مارے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح عن عبادة بن الصامت، وهذا إسناد ضعيف، أخطأ فيه أحد رواته، فجعله من مسند سلمة بن المحبق، والفضل بن دلهم ضعيف، وأيضا قبيصة بن حريث