(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث يعني ابن سعد , قال: حدثني الربيع بن سبرة ، عن ابيه سبرة الجهني , انه قال: اذن لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في المتعة، قال: فانطلقت انا ورجل هو اكبر مني سنا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فلقينا فتاة من بني عامر، كانها بكرة عيطاء، فعرضنا عليها انفسنا، فقالت ما تبذلان؟ قال كل واحد منا: ردائي، قال: وكان رداء صاحبي اجود من ردائي، وكنت اشب منه، قالت: فجعلت تنظر إلى رداء صاحبي، ثم قالت: انت ورداؤك تكفيني، قال: فاقمت معها ثلاثا، قال: ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان عنده من النساء التي تمتع بهن شيء فليخل سبيلها" , قال: ففارقتها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيّ , أَنَّهُ قَالَ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُتْعَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ هُوَ أَكْبَرُ مِنِّي سِنًّا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِينَا فَتَاةً مِنْ بَنِي عَامِرٍ، كَأَنَّهَا بَكْرَةٌ عَيْطَاءُ، فَعَرَضْنَا عَلَيْهَا أَنْفُسَنَا، فَقَالَتْ مَا تَبْذُلَانِ؟ قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا: رِدَائِي، قَالَ: وَكَانَ رِدَاءُ صَاحِبِي أَجْوَدَ مِنْ رِدَائِي، وَكُنْتُ أَشَبَّ مِنْهُ، قَالَتْ: فَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَى رِدَاءِ صَاحِبِي، ثُمَّ قَالَتْ: أَنْتَ وَرِدَاؤُكَ تَكْفِينِي، قَالَ: فَأَقَمْتُ مَعَهَا ثَلَاثًا، قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنَ النِّسَاءِ الَّتِي تَمَتَّعَ بِهِنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهَا" , قَالَ: فَفَارَقْتُهَا.
سیدنا سبرہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے منورہ سے نکلے ہم پندرہ دن وہاں رکے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیدی چنانچہ میں اور میرا ایک چچا زاد نکلے ہم ایک عورت کے پاس پہنچے اس کا تعلق بنوبکر سے تھا اور وہ نہایت جوان تھی جب وہ میرے چچازاد کی چادر کو دیکھتی تو وہ اسے میری چادر سے پرانی معلوم ہو تی اور جب مجھے دیکھتی تو مجھے میرے ساتھی سے زیادہ جوان محسوس کر تی اور میرے پاس چادر بھی نئی تھی ہم نے اس سے کہا کیا ہم میں سے کوئی ایک تم سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اس نے کہا کیا جائز ہے ہم نے کہا ہاں وہ میرے چچا زاد کو دیکھنے لگی تو میں نے اسے بتایا کہ میری چادر نئی اور عمدہ ہے جبکہ اس کی چادر پرانی اور میلی ہے اس نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں چنانچہ میرے چچازاد نے اس سے فائدہ اٹھایا ابھی ہم مکہ مکر مہ سے نکلنے نہ پائے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد العزيز ، قال: اخبرني الربيع بن سبرة الجهني ، عن ابيه ، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضينا عمرتنا , قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استمتعوا من هذه النساء" , قال والاستمتاع عندنا يوم التزويج، قال: فعرضنا ذلك على النساء، فابين إلا ان نضرب بيننا وبينهن اجلا، قال فذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" افعلوا" , قال: فانطلقت انا وابن عم لي ومعه بردة ومعي بردة، وبردته اجود من بردتي، وانا اشب منه فاتينا امراة، فعرضنا ذلك عليها، فاعجبها شبابي، واعجبها برد ابن عمي، فقالت برد كبرد، قال: فتزوجتها، فكان الاجل بيني وبينها عشرا، قال: فبت عندها تلك الليلة، ثم اصبحت غاديا إلى المسجد , فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الباب والحجر , يخطب الناس يقول:" الا ايها الناس، قد كنت اذنت لكم في الاستمتاع من هذه النساء، الا وإن الله تبارك وتعالى، قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء، فليخل سبيلها، ولا تاخذوا مما آتيتموهن شيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَيْنَا عُمْرَتَنَا , قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَمْتِعُوا مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ" , قَالَ وَالِاسْتِمْتَاعُ عِنْدَنَا يَوْمُ التَّزْوِيجِ، قَالَ: فَعَرَضْنَا ذَلِكَ عَلَى النِّسَاءِ، فَأَبَيْنَ إِلَّا أَنْ نُضْرَبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا، قَالَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" افْعَلُوا" , قال: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي وَمَعَهُ بُرْدَةٌ وَمَعِي بُرْدَةٌ، وَبُرْدَتُهُ أَجْوَدُ مِنْ بُرْدَتِي، وَأَنَا أَشَبُّ مِنْهُ فَأَتَيْنَا امْرَأَةً، فَعَرَضْنَا ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَأَعْجَبَهَا شَبَابِي، وَأَعْجَبَهَا بُرْدُ ابْنِ عَمِّي، فَقَالَتْ بُرْدٌ كَبُرْدٍ، قَالَ: فَتَزَوَّجْتُهَا، فَكَانَ الْأَجَلُ بَيْنِي وَبَيْنَهَا عَشْرًا، قَالَ: فَبِتُّ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ غَادِيًا إِلَى الْمَسْجِدِ , فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْبَابِ وَالْحَجَرِ , يَخْطُبُ النَّاسَ يَقُولُ:" أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ، أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ، فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهَا، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا".
سیدنا سبرہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے جب ہم عمرہ کر کے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کی اجازت دیدی ہمارے نزدیک اس سے مراد شادی کرنا تھا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! عورتیں ایک وقت مقررہ کے علاوہ کسی اور صورت میں راضی ہی نہیں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایساہی کر لو چنانچہ میں اور میرا چچا زاد نکلے میرے پاس بھی ایک چادر تھی اور اس کے پاس بھی ایک چادر تھی اس کی چادر میری چادر سے عمدہ تھی اور جسمانی طور پر میں اس سے زیادہ جوان تھا۔ ہم ایک عورت کے پاس پہنچے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا جب وہ میرے ساتھی کی چادر کو دیکھتی تو وہ اسے میری چادر سے اچھی معلوم ہو تی اور جب مجھے دیکھتی تو مجھے میرے ساتھی سے زیادہ جوان محسوس کر تی بالآخر کہنے لگی کہ چادر چادر کے بدلے میں ہو گی اور یہ کہہ کر اس نے مجھے پسند کر لیا اور میں نے اس سے اپنی چادر کے عوض دس دن کے لئے نکاح کر لیا۔ وہ رات میں نے اسی کے ساتھ گزاری جب صبح ہوئی تو مسجد کی طرف میں روانہ ہوا وہاں پہنچ کر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپ فرما رہے تھے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے استمتاع کی اجازت دی تھی سو جس نے جو چیز مقرر کی ہے وہ اسے دیدے اور اپنی دی ہوئی چیز کو اس سے واپس نہ مانگے اور خود اس سے علیحدگی اختیار کر لے کیونکہ اللہ نے اب اس کام کو قیامت تک کے لئے تم پر حرام قرار دے دیا ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لئے جھکتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے مکمل تکبیر نہیں کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف، أعله الأئمة النكارته، فقد تفرد به الحسن بن عمران، وهو مجهول، وقد اضطرب فى تعيين شيخه
سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورت سبح اسم ربک الاعلی اور سورت کافرون اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن عزرة ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم كان:" يقرا في الوتر بسبح اسم ربك الاعلى , وقل يا ايها الكافرون , وقل هو الله احد , وكان إذا سلم قال:" سبحان الملك القدوس" يطولها ثلاثا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ:" يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى , وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ , وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ , وَكَانَ إِذَا سَلَّمَ قَالَ:" سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ" يُطَوِّلُهَا ثَلَاثًا.
سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورت سبح اسم ربک الاعلی اور سورت کافرون اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورت سبح اسم ربک الاعلی اور سورت کافرون اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے
حكم دارالسلام: حديث صحيح، لم يذكر سماع زرارة من عبدالرحمن بن أبزى، لكنه توبع
حدثنا ابو داود الطيالسي: حدثنا شعبة عن قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى (٦)، عن ابيه عن النبي ﷺ بمثل هذا. قال: اخبرني زبيد وسلمة بن كهيل سمعا ذرا يحدث عن ابن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه عن النبي ﷺ مثل هذاحَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى (٦)، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِ هَذَا. قَالَ: أَخْبَرَنِي زُبَيْدٌ وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ سَمِعَا ذَرًّا يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ هَذَا
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال زبيد , وسلمة : اخبراني انهما سمعا ذرا ، عن ابن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم كان:" يوتر بسبح اسم ربك الاعلى , وقل يا ايها الكافرون , وقل هو الله احد , وكان إذا سلم , قال:" سبحان الملك القدوس" ثلاثا يرفع صوته بالآخرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ زُبَيْدٌ , وَسَلَمَةُ : أخبراني أنهما سمعا ذرا ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ:" يُوتِرُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى , وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ , وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ , وَكَانَ إِذَا سَلَّمَ , قال:" سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ" ثَلَاثًا يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالْآخِرَةِ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورت سبح اسم ربک الاعلی اور سورت کافرون اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے