(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا محمد بن عمرو بن علقمة الليثي ، عن ابيه ، عن جده علقمة ، عن بلال بن الحارث المزني ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله عز وجل، ما يظن ان تبلغ ما بلغت، يكتب الله عز وجل له بها رضوانه إلى يوم القيامة، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله عز وجل، ما يظن ان تبلغ ما بلغت، يكتب الله عز وجل بها عليه سخطه إلى يوم القيامة". قال: فكان علقمة يقول: كم من كلام قد منعنيه حديث بلال بن الحارث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ اللَّيْثِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، يَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، يَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا عَلَيْهِ سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ". قَالَ: فَكَانَ عَلْقَمَةُ يَقُولُ: كَمْ مِنْ كَلَامٍ قَدْ مَنَعَنِيهِ حَدِيثُ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ.
سیدنا بلال بن حارث سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بعض اوقات انسان اللہ کی رضامندی کا کوئی ایساکلمہ کہہ دیتا ہے کہ جس کے متعلق اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے لیکن اللہ اس کی برکت سے اس کے لئے قیامت تک رضامندی کا پروانہ لکھ دیتا ہے اور بعض اوقات انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایساکلمہ کہہ دیتا ہے جس کے متعلق اسے خبر بھی نہیں ہو تی کہ اس کی کیا حثیت ہو گی لیکن اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے قیامت تک اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔ راوی حدیث علقمہ کہتے ہیں کہ کتنی ہی باتیں جنہیں کرنے سے مجھے سیدنا بلال کی یہ حدیث روک دیتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن علقمة
سیدنا بلال بن حارث سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! حج کا فسخ ہو نا ہمارے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے یہی حکم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ ہمارے ساتھ خاص ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة الحارث بن بلال، فقد انفرد ربيعة فى رواية هذا الحديث عنه
سیدنا بلال بن حارث سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! حج تمتع کا یہ طریقہ ہمارے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے یہی حکم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ ہمارے ساتھ خاص ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش عن سلام ابي شرحبيل ، عن حبة وسواء ابني خالد، قالا: دخلنا على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلح شيئا فاعناه، فقال:" لا تايسا من الرزق ما تهززت رءوسكما، فإن الإنسان تلده امه احمر ليس عليه قشرة، ثم يرزقه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ سَلَّامِ أَبِي شُرَحْبِيلَ ، عَنْ حَبَّةَ وَسَوَاءَ ابني خالد، قَالَا: دَخَلْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصْلِحُ شَيْئًا فَأَعَنَّاهُ، فَقَالَ:" لَا تَأْيَسَا مِنَ الرِّزْقِ مَا تَهَزَّزَتْ رُءُوسُكُمَا، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ تَلِدُهُ أُمُّهُ أَحْمَرَ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرَةٌ، ثُمَّ يَرْزُقُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا حبہ اور سواء جو خالد کے بیٹے ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کوئی چیز ٹھیک کر رہے تھے لیکن اس نے آپ کو تھکا دیا آپ نے ہم سے فرمایا کہ جب تک تمہارے سر حرکت کر سکتے ہیں کبھی بھی رزق سے مایوس نہ ہو نا کیونکہ انسان کو اس کی ماں جنم دیتی ہے تو وہ چوزے کی طرح ہوتا ہے جس پر کوئی چھلکا نہیں ہوتا اس کے بعد اللہ اسے رزق عطا فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال سلام أبى شرحبيل
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا الاعمش ، عن سلام ابي شرحبيل ، قال: سمعت حبة وسواء ابني خالد يقولان: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يعمل عملا، او يبني بناء، فاعناه عليه، فلما فرغ دعا لنا، وقال:" لا تايسا من الخير ما تهززت رءوسكما، إن الإنسان تلده امه احمر ليس عليه قشرة، ثم يعطيه الله ويرزقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَلَّامٍ أَبِي شُرَحْبِيلَ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَبَّةَ وَسَوَاءَ ابني خالد يقولان: أتينا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَعْمَلُ عَمَلًا، أَوْ يَبْنِي بِنَاءً، فَأَعَنَّاهُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ دَعَا لَنَا، وَقَالَ:" لَا تَأْيَسَا مِنَ الْخَيْرِ مَا تَهَزَّزَتْ رُءُوسُكُمَا، إِنَّ الْإِنْسَانَ تَلِدُهُ أُمُّهُ أَحْمَرَ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرَةٌ، ثُمَّ يُعْطِيهِ اللَّهُ وَيَرْزُقُهُ".
سیدنا حبہ اور سواء جو خالد کے بیٹے ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کوئی چیز ٹھیک کر رہے تھے لیکن اس نے آپ کو تھکا دیا آپ نے ہم سے فرمایا کہ جب تک تمہارے سرحرکت کر سکتے ہیں کبھی بھی رزق سے مایوس نہ ہو نا کیونکہ انسان کو اس کی ماں جنم دیتی ہے تو وہ چوزے کی طرح ہوتا ہے جس پر کوئی چھلکا نہیں ہوتا اس کے بعد اللہ اسے رزق عطا فرماتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: حدثنا خالد ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: جلست إلى رهط انا رابعهم بإيلياء، فقال احدهم: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ليدخلن الجنة بشفاعة رجل من امتي اكثر من بني تميم"، قلنا: سواك يا رسول الله؟ قال:" سواي". قلت: آنت سمعته؟ قال: نعم , فلما قام، قلت: من هذا؟ قالوا: ابن ابي الجذعاء .(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى رَهْطٍ أَنَا رَابِعُهُمْ بِإِيلِيَاءَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ"، قُلْنَا: سِوَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" سِوَايَ". قُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ , فَلَمَّا قَامَ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: ابْنُ أَبِي الْجَذْعَاءِ .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ میں بھی بیٹھا ہوا تھا جن میں سے چوتھا فرد میں تھا اس دوران ان میں سے ایک نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے ایک آدمی سفارش کی وجہ سے بنوتمیم کی تعداد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ شفاعت آپ کی شفاعت کے علاوہ ہو گی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے علاوہ ہو گی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے انہوں نے کہا جی ہاں جب وہ مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں انہوں نے بتایا یہ سیدنا عبداللہ بن ابی جدعاء ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، قال: حدثنا خالد ، عن عبد الله بن شقيق ، عن عبد الله بن ابي الجدعاء ، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" ليدخلن الجنة بشفاعة رجل من امتي اكثر من بني تميم"، فقالوا: يا رسول الله، سواك؟ قال:" سواي سواي"، قلت: آنت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: انا سمعته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سِوَاكَ؟ قَالَ:" سِوَايَ سِوَايَ"، قُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ.
سیدنا عبداللہ بن جدعاء کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے ایک آدمی سفارش کی وجہ سے بنوتمیم کی تعداد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ شفاعت آپ کی شفاعت کے علاوہ ہو گی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے علاوہ ہو گی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے انہوں نے کہا جی ہاں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا ايوب ، عن حميد بن هلال ، قال: قال عبادة بن قرط :" إنكم لتاتون امورا هي ادق في اعينكم من الشعر، كنا نعدها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم الموبقات". قال: فذكر ذلك لمحمد بن سيرين، فقال: صدق، وارى جر الإزار منها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ قُرْطٍ :" إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ أُمُورًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ، كُنَّا نَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُوبِقَاتِ". قَالَ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، فَقَالَ: صَدَقَ، وَأَرَى جَرَّ الْإِزَارِ مِنْهَا.
سیدنا عبادہ بن قرط فرماتے ہیں کہ تم لوگ ایسے کاموں کا ارتکاب کرتے ہو جن کی حثییت تمہاری نظروں میں بال سے بھی کم ہو تی ہے لیکن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں انہی چیزوں کو مہلکات میں شمار کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: هذا الأثر صحيح، وهذا اسناد ضعيف لا نقطاعه، حميد بن هلال لم يسمع من عبادة بينهما أبو قتادة العدوي
(حديث مرفوع) حدثنا مصعب بن المقدام ، ومحمد بن سابق , قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي الجويرية ، ان معن بن يزيد حدثه، قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وابي وجدي، وخطب علي فانكحني، وخاصمت إليه، فكان ابي يزيد خرج بدنانير يتصدق بها، فوضعها عند رجل في المسجد، فاخذتها، فاتيته بها، فقال: والله ما إياك اردت بها , فخاصمته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لك ما نويت يا يزيد، ولك يا معن ما اخذت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ ، أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي، وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي، وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، فَكَانَ أَبِي يَزِيدُ خَرَجَ بِدَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا، فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ بِهَا , فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ، وَلَكَ يَا مَعْنُ مَا أَخَذْتَ".
سیدنا معن بن یزید سے مروی ہے کہ میں نے میرے والد اور دادا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیغام نکاح پر خطبہ پڑھ کر میرا نکاح کر دیا میرے والد یزید نے کچھ دینار صدقہ کی نیت سے نکالے اور مسجد میں ایک آدمی کے ہاتھ پر رکھ دیئے وہ آدمی میں ہی تھا میں نے وہ دینار لئے اور ان کے پاس آیا تو وہ کہنے لگا کہ کہ میں نے تمہیں یہ دینار نہیں دینا چاہے تھے میں یہ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یزید تمہیں اپنی نیت کا ثواب مل گیا اور معن جو تمہارے ہاتھ لگ گیا وہ تمہارا ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1422، مصعب بن المقدام و محمد بن سابق مختلف فيهما وقد توبعا
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم بن كليب ، قال: حدثني سهيل بن ذراع ، انه سمع معن بن يزيد او ابا معن ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجتمعوا في مساجدكم، فإذا اجتمع قوم فليؤذنوني"، قال: فاجتمعنا اول الناس، فاتيناه، فجاء يمشي معنا حتى جلس إلينا، فتكلم متكلم منا، فقال: الحمد لله الذي ليس للحمد دونه مقتصر، وليس وراءه منفذ، ونحوا من هذا، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام، فتلاومنا، ولام بعضنا بعضا، فقلنا: خصنا الله به ان اتانا اول الناس، وان فعل وفعل , قال: فاتيناه، فوجدناه في مسجد بني فلان، فكلمناه، فاقبل يمشي معنا، حتى جلس في مجلسه الذي كان فيه او قريبا منه، ثم قال:" إن الحمد لله، ما شاء الله جعل بين يديه، وما شاء جعل خلفه، وإن من البيان سحرا"، ثم اقبل علينا فامرنا، وكلمنا، وعلمنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُهَيْلُ بْنُ ذِرَاعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ أَوْ أَبَا مَعْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْتَمِعُوا فِي مَسَاجِدِكُمْ، فَإِذَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فَلْيُؤْذِنُونِي"، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا أَوَّلَ النَّاسِ، فَأَتَيْنَاهُ، فَجَاءَ يَمْشِي مَعَنَا حَتَّى جَلَسَ إِلَيْنَا، فَتَكَلَّمَ مُتَكَلِّمٌ مِنَّا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَيْسَ لِلْحَمْدِ دُونَهُ مُقْتَصَرٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَهُ مَنْفَذٌ، وَنَحْوًا مِنْ هَذَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ، فَتَلَاوَمْنَا، وَلَامَ بَعْضُنَا بَعْضًا، فَقُلْنَا: خَصَّنَا اللَّهُ بِهِ أَنْ أَتَانَا أَوَّلَ النَّاسِ، وَأَنْ فَعَلَ وَفَعَلَ , قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فَوَجَدْنَاهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ، فَكَلَّمْنَاهُ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي مَعَنَا، حَتَّى جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي كَانَ فِيهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، مَا شَاءَ اللَّهُ جَعَلَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَمَا شَاءَ جَعَلَ خَلْفَهُ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا"، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَأَمَرَنَا، وَكَلَّمَنَا، وَعَلَّمَنَا.
سیدنا معن سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد میں سب لوگ جمع ہو جاؤ اور جب لوگ جمع ہو جائیں تو مجھے اطلاع کرنا چنانچہ سب سے پہلے ہم لوگ آئے تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوقار طریقے سے چلتے ہوئے تشریف لائے اور آ کر رونق افروز ہو گئے اسی اثناء میں ہم میں سے ایک آدمی تک بندی کے ساتھ کلام کرتے ہوئے کہنے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ہم ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ اللہ نے ہمیں سب سے پہلے حاضر ہو نے کی خصوصیت عطا فرمائی تھی اور فلاں شخص نے یہ حرکت کر دی پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو بنو فلاں کی مسجد میں پایا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کے لئے کوشش کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ چلتے ہوئے آئے اور پہلے والی نشست پر آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتا ہے اپنے سامنے کر لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے پیچھے کر دیتا ہے اور بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر ہمیں کچھ احکامات بتائے اور کچھ باتیں تعلیم فرمائیں۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف، سهيل بن ذرا مجهول