سیدنا ابوطریف سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت طائف کا محاصرہ کیا ہے میں آپ کے ساتھ ہی تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مغرب کی نماز اس وقت پڑھاتے تھے کہ اگر کوئی آدمی تیر پھینکتا تو تیر گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الوليد بن عبدالله
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث سرية بعثها اول النهار، وكان صخر رجلا تاجرا، وكان لا يبعث غلمانه إلا من اول النهار، فكثر ماله حتى كان لا يدري اين يضع ماله.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً بَعَثَهَا أَوَّلَ النَّهَارِ، وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، وَكَانَ لَا يَبْعَثُ غِلْمَانَهُ إِلَّا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، فَكَثُرَ مَالُهُ حَتَّى كَانَ لَا يَدْرِي أَيْنَ يَضَعُ مَالَهُ.
سیدنا صخر غامدی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ میری امت کے پہلے اوقات میں برکت عطا فرما خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو اس لشکر کو دن کے ابتدائی حصے میں بھیجتے تھے اور راوی حدیث سیدنا صخر تاجر آدمی تھے یہ بھی اپنے نوکر وں کو صبح سویرے ہی بھیجتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے پاس مال دولت کی اتنی کثرت ہو گئی تھی کہ انہیں یہ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اپنا مال دولت کہاں رکھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمارة بن حديد، وقوله: اللهم بارك لأمتي فى بكورهم، فهو حسن بشواهده
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، وسريج المعنى , قالا: حدثنا نافع بن عمر ، عن امية بن صفوان ، عن ابي بكر بن ابي زهير , كلاهما قال: عن ابي بكر بن ابي زهير الثقفي , عن ابيه , قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول بالنباءة او بالنباءة شك نافع من الطائف وهو يقول:" يا ايها الناس، إنكم توشكون ان تعرفوا اهل الجنة من اهل النار" , او قال:" خياركم من شراركم" , قال: فقال رجل من الناس: بم يا رسول الله؟ قال:" بالثناء السيئ، والثناء الحسن، وانتم شهداء الله بعضكم على بعض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، وَسُرَيْجٌ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ , كِلَاهُمَا قَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ الثَّقَفِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِالنَّبَاءَةِ أَوْ بِالنِّبَاءَةِ شَكَّ نَافِعٌ مِنَ الطَّائِفِ وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تُوشِكُونَ أَنْ تَعْرِفُوا أَهْلَ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ" , أَوْ قَالَ:" خِيَارَكُمْ مِنْ شِرَارِكُمْ" , قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِالثَّنَاءِ السَّيِّئِ، وَالثَّنَاءِ الْحَسَنِ، وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ".
ابوبکر بن ابی زہیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانہ نبوت میں طائف میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے لوگو عنقریب تم اہل جنت اور اہل جہنم یا اچھوں اور بروں میں امتیاز کر سکوگے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ کیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو اچھی اور بری تعریف کے ذریعے کیونکہ تم لوگ ایک دوسرے کے متعلق زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
(حديث مرفوع) حدثنا بهز , وعفان , قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن يعلى بن عطاء ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن الحارث بن عبد الله بن اوس الثقفي ، قال: سالت عمر بن الخطاب عن المراة تطوف بالبيت، ثم تحيض، قال: ليكن آخر عهدها الطواف بالبيت، فقال الحارث كذلك افتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال عمر: اربت عن يديك، سالتني عن شيء، سالت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، لكني ما اخالف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَةِ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ تَحِيضُ، قَالَ: لِيَكُنْ آخِرَ عَهْدِهَا الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، فَقَالَ الْحَارِثُ كَذَلِكَ أَفْتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ عُمَرُ: أَرِبْتَ عَنْ يَدَيْكَ، سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ، سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَكِنِّي مَا أُخَالِفُ.
سیدنا حارث بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا عمر سے اس عورت کا حکم پوچھا: جو بیت اللہ کا طواف کر رہی تھی پھر اسے ایام آ گئے انہوں نے فرمایا کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو نا چاہیے سیدنا حارث نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی مسئلہ بتایا تھا سیدنا عمر نے انہیں سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم مجھ سے اس چیز کے متعلق دریافت کر رہے ہو جس کے متعلق تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر چکے ہو لیکن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
سیدنا حارث بن عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کر لے اس پر آخری کام بیت اللہ کا طواف کرنا ہے سیدنا عمر کو ان کی یہ حدیث معلوم ہوئی تو انہوں نے انہیں سخت سست کہا اور فرمایا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے اور پھر ہمیں بھی نہیں بتائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحجاج بن أرطاة وعبدالرحمن بن البيلماني، ولا رساله عمرو بن أوس لم يسمع النبى ﷺ
سیدنا حارث بن عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کر لے اس پر آخری کام بیت اللہ کا طواف کرنا ہے سیدنا عمر کو ان کی یہ حدیث معلوم ہوئی تو انہوں نے انہیں سخت سست کہا اور فرمایا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے اور پھر ہمیں بھی نہیں بتائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحجاج بن أرطاة وعبدالرحمن بن البيلماني
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فكان" إذا بعث سرية , او جيشا بعثهم من اول النهار"، قال: فكان صخر رجلا تاجرا، وكان يبعث تجارته من اول النهار، قال فاثرى، وكثر ماله.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَكَانَ" إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً , أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ"، قَالَ: فَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، وَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، قَالَ فَأَثْرَى، وَكَثُرَ مَالُهُ.
سیدنا صخر غامدی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ میری امت کے پہلے اوقات میں برکت عطا فرما خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو اس لشکر کو دن کے ابتدائی حصے میں بھیجتے تھے اور راوی حدیث سیدنا صخر تاجر آدمی تھے یہ بھی اپنے نوکر وں کو صبح سویرے ہی بھیجتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے پاس مال دولت کی کثرت ہو گئی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمارة ، وقوله: اللهم بارك لأمتي فى بكورها فهو حسن بشواهده
سیدنا ایاس بن عبد سے مروی ہے کہ ضرورت سے زائد پانی مت بیچا کر و کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو بیچنے سے منع فرمایا ہے دراصل زمانے میں لوگ دریائے فرات کا پانی بیچنے لگے تھے اس لئے انہوں نے اس سے منع فرمایا:۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، اخبرنا عمرو بن كثير المكي ، قال: سالت عبد الرحمن بن كيسان مولى خالد بن اسيد، قلت: الا تحدثني عن ابيك؟ فقال: ما سالتني، فقال: حدثني ابي انه:" راى رسول الله صلى الله عليه وسلم، خرج من المطابخ حتى اتى البئر، وهو متزر بإزار ليس عليه رداء، فراى عند البئر عبيدا يصلون، فحل الإزار، وتوشح به، وصلى ركعتين لا ادري الظهر او العصر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ كَيْسَانَ مَوْلَى خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ، قُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي عَنْ أَبِيكَ؟ فَقَالَ: مَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ:" رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ مِنَ الْمَطَابِخِ حَتَّى أَتَى الْبِئْرَ، وَهُوَ مُتَّزِرٌ بِإِزَارٍ لَيْسَ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، فَرَأَى عِنْدَ الْبِئْرِ عَبِيدًا يُصَلُّونَ، فَحَلَّ الْإِزَارَ، وَتَوَشَّحَ بِهِ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا أَدْرِي الظُّهْرَ أَوْ الْعَصْرَ".
عمرو بن کثیر کہتے ہیں میں نے عبدالرحمن بن کیسان سے کہا کہ آپ مجھے اپنے والد کے حوالے سے کوئی حدیث کیوں نہیں سناتے انہوں نے کہا تم نے مجھ سے اس کی درخواست کی ہی کب ہے پھر کہنے لگے کہ میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مطبح سے نکلے کنویں پر پہنچے اس وقت آپ نے صرف تہبند باندھ رکھا تھا اوپر کی چادر آپ کے جسم مبارک پر نہ تھی کنویں کے پاس آپ نے چند غلاموں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ نے تہبند کی گرہ کھول دی اور پانی کے چھینٹے مارے اور دو رکعتیں پڑھیں البتہ مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ ظہر کی نماز تھی یا عصر کی۔
عبدالرحمن بن کیسان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کیسان سے پوچھا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح پایا تھا انہوں نے جواب دیا میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بئر بن مطیع نامی اونچے کنویں پر ایک کپڑے میں لپٹ کر ظہر یا عصر کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا آپ نے اس وقت دو رکعتیں پڑھی تھیں۔