سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مصوروں کو قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جنہیں تم نے بنایا تھا ان میں روح بھی پھونکو اور انہیں زندگی بھی دو۔“
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نوافل تو سواری پر ہی پڑھ لیتے تھے لیکن جب وتر پڑھنا چاہتے تو زمین پر اتر کر وتر پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن سعيد بن جبير ، قال، قلت لابن عمر رجل قذف امراته؟ فقال: فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان، وقال:" الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟ فابيا، فرددهما ثلاث مرات، فابيا، ففرق بينهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ، قُلْتُ لِابْنِ عُمَر رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ؟ فَقَال: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ:" اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ فَأَبَيَا، فَرَدَّدَهُمَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والے کے متعلق مسئلہ پوچھا: انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے کے لئے تیار ہے؟ لیکن ان میں سے کوئی بھی تیار نہ ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کے سامنے یہ بات دہرائی اور ان کے انکار پر ان کے درمیان تفریق کرا دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، قال: نادى ابن عمر بالصلاة بضجنان، ثم نادى ان صلوا في رحالكم، ثم حدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: انه كان يامر المنادي، فينادي بالصلاة ثم ينادي، ان" صلوا في رحالكم، في الليلة الباردة، وفي الليلة المطيرة، في السفر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: نَادَى ابْنُ عُمَرَ بِالصَّلَاةِ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ نَادَى أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ الْمُنَادِيَ، فَيُنَادِي بِالصَّلَاةِ ثُمَّ يُنَادِي، أَنْ" صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ، وَفِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، فِي السَّفَرِ".
نافع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وادی ضجنان میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز کا اعلان کروایا، پھر یہ منادی کر دی کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوران سفر سردی کی راتوں میں یا بارش والی راتوں میں نماز کا اعلان کر کے یہ منادی کر دیتے تھے کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" من اتخذ او قال: اقتنى كلبا ليس بضار، ولا كلب ماشية، نقص من اجره كل يوم قيراطان"، فقيل له: إن ابا هريرة، يقول: وكلب حرث؟ فقال: إن لابي هريرة حرثا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ اتَّخَذَ أَوْ قَالَ: اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِضَارٍ، وَلَا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ"، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: وَكَلْبَ حَرْثٍ؟ فَقَالَ: إِنَّ لِأَبِي هُرَيْرَةَ حَرْثاً.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایسا کتا رکھے جو حفاظت کے لئے بھی نہ ہو اور نہ ہی شکاری کتا ہو تو اس کے ثواب میں روزانہ ایک قیراط کمی ہوتی رہے گی“ ان سے کسی نے عرض کیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو کھیت کی حفاظت کرنے والے کتے کا بھی ذکر کرتے ہیں؟ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا کھیت ہے، (اس لئے وہ اس استثناء کو خوب اچھی طرح یاد رکھ سکتے ہیں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، ان ابن عمر دخل عليه ابنه عبد الله بن عبد الله، وظهره في الدار، فقال: إني لا آمن ان يكون العام بين الناس قتال، فتصد عن البيت، فلو اقمت؟ فقال: قد" خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فإن يحل بيني وبينه، افعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، قال: إني قد اوجبت عمرة، ثم سار حتى إذا كان بالبيداء، قال: ما ارى امرهما إلا واحدا، اشهدكم اني قد اوجبت مع عمرتي حجا، ثم قدم، فطاف لهما طوافا واحدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ دَخَلَ عَلَيْهِ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَظَهْرُهُ فِي الدَّارِ، فَقَالَ: إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، فَتُصَدّ عَنِ الْبَيْتِ، فَلَوْ أَقَمْتَ؟ فَقَالَ: قَدْ" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَإِنْ يُحَلْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، أَفْعَلْ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، قَالَ: إِنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا أَرَى أَمْرَهُمَا إِلَّا وَاحِدًا، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، ثُمَّ قَدِمَ، فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے صاحبزادے عبداللہ آئے اور کہنے لگے کہ مجھے اندیشہ ہے اس سال لوگوں کے درمیان قتل و قتال ہو گا اور آپ کو حرم شریف پہنچنے سے روک دیا جائے گا، اگر آپ اس سال ٹھہر جاتے اور حج کے لئے نہ جاتے تو بہتر ہوتا؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے اور کفار قریش ان کے اور حرم شریف کے درمیان حائل ہو گئے تھے، اس لئے اگر میرے سامنے بھی کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہی کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ تمہارے لئے اللہ کے پیغمبر کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے اور فرمایا کہ میں عمرہ کی نیت کر چکا ہوں۔ اس کے بعد وہ روانہ ہو گئے، چلتے چلتے جب مقام بیداء پر پہنچے تو فرمانے لگے کہ حج اور عمرہ دونوں کا معاملہ ایک ہی جیسا تو ہے، میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کی بھی نیت کر لی ہے چنانچہ وہ مکہ مکرمہ پہنچے اور دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" رايت الرجال والنساء يتوضئون على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعا من إناء واحد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" رَأَيْتُ الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ يَتَوَضَّئُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيعًا مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مردوں اور عورتوں کو اکٹھے ایک ہی برتن سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ان رجلا قال: يا رسول الله، ما يلبس المحرم؟ او قال: ما يترك المحرم؟ فقال:" لا يلبس القميص، ولا السراويل، ولا العمامة، ولا الخفين، إلا ان لا يجد نعلين، فمن لم يجد نعلين فليلبسهما اسفل من الكعبين، ولا البرنس، ولا شيئا من الثياب مسه ورس ولا زعفران".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ؟ أَوْ قَالَ: مَا يَتْرُكُ الْمُحْرِمُ؟ فَقَالَ:" لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَ، وَلَا الْعِمَامَةَ، وَلَا الْخُفَّيْنِ، إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا الْبُرْنُسَ، وَلَا شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ مَسَّهُ وَرْسٌ وَلَا زَعْفَرَانٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ!! محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ یا یہ پوچھا کہ محرم کون سا لباس ترک کر دے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرم قمیض، شلوار، عمامہ اور موزے نہیں پہن سکتا الاّ یہ کہ اسے جوتے نہ ملیں، جس شخص کو جوتے نہ ملیں اسے چاہئے کہ وہ موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے، اسی طرح ٹوپی یا ایسا کپڑا جس پر ورس نامی گھاس یا زعفران لگی ہوئی ہو، وہ بھی محرم نہیں پہن سکتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر انه قال في عاشوراء:" صامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وامر بصومه، فلما فرض رمضان ترك، فكان عبد الله لا يصومه، إلا ان ياتي على صومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ فِي عَاشُورَاءَ:" صَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ بِصَوْمِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يَصُومُهُ، إِلَّا أَنْ يَأْتِيَ عَلَى صَوْمِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عاشورہ کے روزے کے متعلق فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا ہے اور دوسروں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو یہ روزہ متروک ہو گیا، خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے الاّ یہ کہ وہ ان کے معمول کے روزے پر آ جاتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" البيعان بالخيار حتى يتفرقا، او يكون بيع خيار"، قال: وربما قال نافع:" او يقول احدهما للآخر: اختر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، أَوْ يَكُونَ بَيْعَ خِيَارٍ"، قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ نَافِعٌ:" أَوْ يَقُولَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ: اخْتَرْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں، یا یہ کہ وہ بیع خیار ہو۔“ نافع کبھی یوں بھی کہتے تھے یا یہ کہ ان دونوں میں سے ایک دوسرے سے کہہ دے کہ اختیار کر لو۔