(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: برز النبي صلى الله عليه وسلم وانا معه، فقال لي:" التمس لي ثلاثة احجار"، قال: فوجدت له حجرين وروثة، قال: فاتيته بها، فاخذ الحجرين، والقى الروثة، وقال:" هذه ركس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَرَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَقَالَ لِي:" الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ"، قَالَ: فَوَجَدْتُ لَهُ حَجَرَيْنِ وَرَوْثَةً، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ، وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ:" هَذِهِ رِكْسٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے نکلے تو مجھ سے فرمایا کہ ”میرے پاس تین پتھر تلاش کر کے لاؤ“، میں دو پتھر اور لید کا ایک خشک ٹکڑا لا سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لئے اور لید کے ٹکڑے کو پھینک کر فرمایا: ”یہ ناپاک ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح، م: 2184، وهذا إسناد حسن من أجل عاصم.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ابو بكر ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: خط رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا بيده، ثم قال:" هذا سبيل الله مستقيما"، قال: ثم خط عن يمينه وشماله، ثم قال:" هذه السبل، وليس منها سبيل إلا عليه شيطان يدعو إليه"، ثم قرا: وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل سورة الانعام آية 153".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَطَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ مُسْتَقِيمًا"، قَالَ: ثُمَّ خَطَّ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ:" هَذِهِ السُّبُلُ، وَلَيْسَ مِنْهَا سَبِيلٌ إِلَّا عَلَيْهِ شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ"، ثُمَّ قَرَأَ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ سورة الأنعام آية 153".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ ”یہ مختلف راستے ہیں، جن میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے اور ان راستوں پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾»[الأنعام: 153]”یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو اس کی پیروی کرو، دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن الحسن ، حدثنا ابو كدينة ، عن عطاء بن السائب ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: مر يهودي برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث اصحابه، فقالت قريش: يا يهودي، إن هذا يزعم انه نبي! فقال: لاسالنه عن شيء لا يعلمه إلا نبي، قال: فجاء حتى جلس، ثم قال: يا محمد، مم يخلق الإنسان؟ قال" يا يهودي، من كل يخلق: من نطفة الرجل، ومن نطفة المراة، فاما نطفة الرجل فنطفة غليظة، منها العظم والعصب، واما نطفة المراة فنطفة رقيقة منها اللحم والدم"، فقام اليهودي، فقال: هكذا كان يقول من قبلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ قُرَيْشٌ: يَا يَهُودِيُّ، إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ! فَقَالَ: لَأَسْأَلَنَّهُ عَنْ شَيْءٍ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِيٌّ، قَالَ: فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مِمَّ يُخْلَقُ الْإِنْسَانُ؟ قَالَ" يَا يَهُودِيُّ، مِنْ كُلٍّ يُخْلَقُ: مِنْ نُطْفَةِ الرَّجُلِ، وَمِنْ نُطْفَةِ الْمَرْأَةِ، فَأَمَّا نُطْفَةُ الرَّجُلِ فَنُطْفَةٌ غَلِيظَةٌ، مِنْهَا الْعَظْمُ وَالْعَصَبُ، وَأَمَّا نُطْفَةُ الْمَرْأَةِ فَنُطْفَةٌ رَقِيقَةٌ مِنْهَا اللَّحْمُ وَالدَّمُ"، فَقَامَ الْيَهُودِيُّ، فَقَالَ: هَكَذَا كَانَ يَقُولُ مَنْ قَبْلَكَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی گزرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے گفتگو فرما رہے تھے، قریش کہنے لگے کہ اے یہودی! یہ شخص اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے، وہ کہنے لگا کہ میں ان سے ایک ایسی بات پوچھوں گا جو کسی نبی کے علم میں ہی ہو سکتی ہے، چنانچہ وہ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! انسان کی تخلیق کن چیزوں سے ہوتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے یہودی! مرد کے نطفہ سے بھی ہوتی ہے اور عورت کے نطفہ سے بھی، مرد کا نطفہ تو گاڑھا ہوتا ہے جس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں، اور عورت کا نطفہ پتلا ہوتا ہے جس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔“ یہ سن کر وہ یہودی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ سے پہلے پیغمبر بھی یہی فرماتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة يعني ابن حميد ، عن منصور ، عن ابي وائل ، قال: كان عبد الله يذكر كل خميس او اثنين، الايام، قال: فقلنا: او فقيل: يا ابا عبد الرحمن، إنا لنحب حديثك، ونشتهيه، ووددنا انك تذكرنا كل يوم. فقال عبد الله : إنه لا يمنعني من ذاك إلا اني اكره ان املكم، وإني" لاتخولكم بالموعظة، كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخولنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ كُلَّ خَمِيسٍ أَوْ اثْنَيْنِ، الْأَيَّامَ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْ فَقِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّا لَنُحِبُّ حَدِيثَكَ، وَنَشْتَهِيهِ، وَوَدِدْنَا أَنَّكَ تُذَكِّرُنَا كُلَّ يَوْمٍ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّهُ لَا يَمْنَعُنِي مِنْ ذَاكَ إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي" لَأَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا".
ابووائل کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وعظ فرمایا کرتے تھے، ان سے کسی نے کہا: ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ فرمایا کریں، انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصیحت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن الحجاج ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عبد الله بن مسعود ، انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال مسالة، وهو عنها غني، جاءت يوم القيامة كدوحا في وجهه، ولا تحل الصدقة لمن له خمسون درهما، او عوضها من الذهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنْ الْحَجَّاجِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ مَسْأَلَةً، وَهُوَ عَنْهَا غَنِيٌّ، جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كُدُوحًا فِي وَجْهِهِ، وَلَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِمَنْ لَهُ خَمْسُونَ دِرْهَمًا، أَوْ عِوَضُهَا مِنَ الذَّهَبِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ضرورت کے بقدر موجود ہوتے ہوئے بھی دست سوال دراز کرے، قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ نوچا گیا ہوا محسوس ہو گا، اور اس شخص کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہے جس کے پاس بچاس درہم یا اس کے برابر سونا موجود ہو۔“
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، نصر ضعيف، والحجاج مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا الثوري ، عن علقمة بن مرثد ، عن المغيرة بن عبد الله اليشكري ، عن المعرور بن سويد ، عن عبد الله ، قال: قالت ام حبيبة: اللهم متعني بزوجي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبابي ابي سفيان، وباخي معاوية، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنك سالت الله لآجال مضروبة، وارزاق مقسومة، وآثار مبلوغة، لا يعجل منها شيء قبل حله، ولا يؤخر منها شيء بعد حله، ولو سالت الله ان يعافيك من عذاب في النار، وعذاب في القبر، كان خيرا لك". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال: فقال رجل: يا رسول الله، القردة والخنازير، هي مما مسخ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل لم يمسخ قوما، او يهلك قوما، فيجعل لهم نسلا ولا عاقبة، وإن القردة والخنازير قد كانت قبل ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيِّ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِزَوْجِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِأَبِي أَبِي سُفْيَانَ، وَبِأَخِي مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكِ سَأَلْتِ اللَّهَ لِآجَالٍ مَضْرُوبَةٍ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَةٍ، وَآثَارٍ مَبْلُوغَةٍ، لَا يُعَجَّلُ مِنْهَا شَيْءٌ قَبْلَ حِلِّهِ، وَلَا يُؤَخَّرُ مِنْهَا شَيْءٌ بَعْدَ حِلِّهِ، وَلَوْ سَأَلْتِ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ، وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ، كَانَ خَيْرًا لَكِ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ، هِيَ مِمَّا مُسِخَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَمْسَخْ قَوْمًا، أَوْ يُهْلِكْ قَوْمًا، فَيَجْعَلَ لَهُمْ نَسْلًا وَلَا عَاقِبَةً، وَإِنَّ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ قَدْ كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا یہ دعا کر رہی تھیں کہ اے اللہ! مجھے اپنے شوہر نامدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنے والد ابوسفیان اور اپنے بھائی معاویہ سے فائدہ پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ دعا سن لی اور فرمایا کہ ”تم نے اللہ سے طے شدہ مدت، گنتی کے چند دن اور تقسیم شدہ رزق کا سوال کیا، ان میں سے کوئی چیز بھی اپنے وقت سے پہلے تمہیں نہیں مل سکتی اور اپنے وقت مقررہ سے مؤخر نہیں ہو سکتی، اگر تم اللہ سے یہ دعا کرتیں کہ وہ تمہیں عذاب جہنم اور عذاب قبر سے محفوظ فرما دے تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا۔“ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ بندر اور خنزیر انسانوں کی مسخ شدہ شکل ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس قوم کی شکل کو مسخ کیا اس کی نسل کو کبھی باقی نہیں رکھا، جبکہ بندر اور خنزیر تو پہلے سے چلے آرہے ہیں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تذکرہ ہوا کہ بندر انسانوں کی مسخ شدہ شکل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جس قوم کی شکل کو مسخ کیا اس کی نسل کو کبھی باقی نہیں رکھا، جبکہ بندر اور خنزیر تو پہلے سے چلے آرہے ہیں۔
عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے کسی چیز کی خرید و فروخت کی تھی، مشتری (خریدنے والا) کہنے لگا کہ یہ چیز میں نے اتنے میں خریدی ہے، اور بائع (بیچنے والا) کہنے لگا کہ یہ چیز میں نے اتنے میں فروخت کی ہے، ابوعبیدہ کہنے لگے کہ ایسا ہی ایک مقدمہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی آیا تھا اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ ایسا ایک واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی پیش آیا تھا اور اس وقت میں وہاں موجود تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بائع (بیچنے والے) کو حلف اٹھانے کا حکم دیا، پھر مشتری (خریدنے والے) کو اختیار دے دیا کہ ”چاہے تو اسے لے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔“ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بمجموع طرقه، وهذا إسناد ضعيف، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: قرات على ابي: حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، قال: حدثني عون بن عبد الله ، عن ابن مسعود ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا اختلف البيعان، فالقول ما قال البائع، والمبتاع بالخيار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، فَالْقَوْلُ مَا قَالَ الْبَائِعُ، وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اگر بائع اور مشتری (خریدنے والے اور بیچنے والے) کا اختلاف ہو جائے تو بائع (بیچنے والے) کی بات کا اعتبار ہو گا، اور مشتری (خریدنے والے) کو خریدنے یا نہ خریدنے کا اختیار ہو گا۔“
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، عون بن عبد الله لم يدرك عم أبيه ابن مسعود.