(حديث مرفوع) حدثنا ابو قطن ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، عن إبراهيم ، عن خاله ، عن عبد الله بن مسعود ، ان رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: لقيت امراة في حش بالمدينة، فاصبت منها ما دون الجماع،" فنزلت: واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا سورة هود آية 114".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ خَالِهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقِيتُ امْرَأَةً فِي حُشٍّ بِالْمَدِينَةِ، فَأَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ،" فَنَزَلَتْ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا سورة هود آية 114".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مدینہ منورہ کے ایک باغ میں ایک عورت سے میرا آمنا سامنا ہو گیا، میں نے مباشرت کے علاوہ اس کے ساتھ سب ہی کچھ کیا ہے، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾»[هود: 114]”دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2763، وهذا إسناد حسن من أجل سماك.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو قطن ، حدثنا المسعودي ، عن سعيد بن عمرو ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله بن مسعود ، ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: متى ليلة القدر؟ قال:" من يذكر منكم ليلة الصهباوات؟" قال عبد الله: انا، بابي انت وامي، وإن في يدي لتمرات استحر بهن، مستترا من الفجر بمؤخرة رحلي، وذلك حين طلع القمير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَتَى لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ:" مَنْ يَذْكُرُ مِنْكُمْ لَيْلَةَ الصَّهْبَاوَاتِ؟" قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَا، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَإِنَّ فِي يَدِي لَتَمَرَاتٍ أَسْتَحِرُ بِهِنَّ، مُسْتَتِرًا مِنَ الْفَجْرِ بِمُؤْخِرَةِ رَحْلِي، وَذَلِكَ حِينَ طَلَعَ الْقُمَيْرُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آ کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ شب قدر کب ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے وہ رات کسے یاد ہے جو سرخ و سفید ہو رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے یاد ہے، میرے ہاتھ میں اس وقت کچھ کھجوریں تھیں اور میں چھپ کر اپنے کجاوے کے پچھلے حصے میں ان سے سحری کر رہا تھا اور اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبن مسعود.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملے پر گواہ بننے والے اور اسے تحریر کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحارث بن حصيرة ، حدثنا القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن ابن مسعود ، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف انتم وربع اهل الجنة، لكم ربعها، ولسائر الناس ثلاثة ارباعها؟"، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" فكيف انتم وثلثها؟" قالوا: فذاك اكثر! قال:" فكيف انتم والشطر؟" قالوا: فذلك اكثر! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اهل الجنة يوم القيامة عشرون ومائة صف انتم منها ثمانون صفا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ أَنْتُمْ وَرُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، لَكُمْ رُبُعُهَا، وَلِسَائِرِ النَّاسِ ثَلَاثَةُ أَرْبَاعِهَا؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَكَيْفَ أَنْتُمْ وَثُلُثَهَا؟" قَالُوا: فَذَاكَ أَكْثَرُ! قَالَ:" فَكَيْفَ أَنْتُمْ وَالشَّطْرَ؟" قَالُوا: فَذَلِكَ أَكْثَرُ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهْلُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ صَفٍّ أَنْتُمْ مِنْهَا ثَمَانُونَ صَفًّا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ ”اگر تم لوگ اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو اور باقی ساری امتیں تین چوتھائی تو کیسا رہے گا؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اگر تم اہل جنت کا ایک تہائی ہو تو؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: پہلے کی نسبت یہ تعداد زیادہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اہل جنت کا نصف ہو تو؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یہ پہلے سے بھی زیادہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، جن میں سے صرف تمہاری اسی صفیں ہوں گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، عبدالرحمن - وإن لم يسمع من أبيه إلا شيئا يسيرا - متابع.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنے جن امتیوں کو نہیں دیکھا، انہیں آپ کیسے پہچانیں گے؟ فرمایا: ”ان کی پیشانیاں وضو کے آثار کی وجہ سے انتہائی روشن اور چمکدار ہوں گی جیسے چتکبرا گھوڑا ہوتا ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے سن کر ستر سورتیں پڑھی ہیں، ان میں کوئی شخص مجھ سے جھگڑا نہیں کر سکتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال: اخبرنا عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل ، عن ابن مسعود ، قال: تكلم رجل من الانصار كلمة فيها موجدة على النبي صلى الله عليه وسلم، فلم تقرني نفسي ان اخبرت بها النبي صلى الله عليه وسلم، فلوددت اني افتديت منها بكل اهل ومال، فقال:" قد آذوا موسى عليه الصلاة والسلام، اكثر من ذلك فصبر". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ثم اخبر" ان نبيا كذبه قومه، وشجوه حين جاءهم بامر الله، فقال وهو يمسح الدم عن وجهه: اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: تَكَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَلِمَةً فِيهَا مَوْجِدَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ تُقِرَّنِي نَفْسِي أَنْ أَخْبَرْتُ بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَوَدِدْتُ أَنِّي افْتَدَيْتُ مِنْهَا بِكُلِّ أَهْلٍ وَمَالٍ، فَقَالَ:" قَدْ آذَوْا مُوسَى عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَبَرَ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ثُمَّ أَخْبَرَ" أَنَّ نَبِيًّا كَذَّبَهُ قَوْمُهُ، وَشَجُّوهُ حِينَ جَاءَهُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ، فَقَالَ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک انصاری آدمی نے ایسی بات کہی جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غصہ کا اظہار ہوتا تھا، میرا دل نہیں مانا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دوں، کاش! میں اس بات کے بدلے اپنے اہل خانہ اور تمام مال و دولت کو فدیے کے طور پر پیش کر سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔“ پھر فرمایا کہ ”ایک نبی کو ان کی قوم نے جھٹلایا اور انہیں زخمی کیا کیونکہ وہ اللہ کے احکامات لے کر آئے تھے، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ”پروردگار! میری قوم کو معاف فرما دے، یہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔“(واقعہ طائف کی طرف اشارہ ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن من أجل عاصم.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، قال: اخبرنا عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" انا فرطكم على الحوض، وسانازع رجالا، فاغلب عليهم، فلاقولن: رب اصيحابي، اصيحابي، فليقالن لي: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَسَأُنَازَعُ رِجَالًا، فَأُغْلَبُ عَلَيْهِمْ، فَلَأَقُولَنَّ: رَبِّ أُصَيْحَابِي، أُصَيْحَابِي، فَلَيُقَالَنَّ لِي: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار کروں گا، مجھ سے اس موقع پر کچھ لوگوں کے بارے جھگڑا کیا جائے گا اور میں مغلوب ہو جاؤں گا، میں عرض کروں گا: ”پروردگار! میرے ساتھی؟“ ارشاد ہوگا کہ ”آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔“
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: ربما حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فيكبو، ويتغير لونه، وهو يقول هكذا، او قريبا من هذا".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: رُبَّمَا حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَيَكْبُو، وَيَتَغَيَّرُ لَوْنُهُ، وَهُوَ يَقُولُ هَكَذَا، أَوْ قَرِيبًا مِنْ هَذَا".
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اتنا کہتے ہی ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور کہنے لگے: اسی طرح فرمایا، یا اس کے قریب قریب فرمایا۔ (احتیاط کی دلیل)
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، اخبرنا عطاء بن السائب ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، ان عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انزل الله عز وجل من داء إلا انزل معه شفاء وقال عفان مرة: إلا انزل له شفاء، علمه من علمه، وجهله من جهله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ دَاءٍ إِلَّا أَنْزَلَ مَعَهُ شِفَاءً وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جو بیماری بھی اتاری ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، جو جان لیتا ہے سو جان لیتا ہے، اور جو ناواقف رہتا ہے سو ناواقف رہتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهمام العوذي و إن سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه - متابع.