سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ”اللہ نے جو بیماری بھی اتاری ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، جو جان لیتا ہے سو جان لیتا ہے اور جو ناواقف رہتا ہے سو ناواقف رہتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، سفيان الثوري سمع من عطاء بن السائب قبل اختلاطه.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، اور اس کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں، کسی نے پوچھا: کیا نماز میں اضافہ ہوگیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، کیا ہوا؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ نے تو پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں موڑے اور سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کر لئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، قال: حدثنا سليمان ، عن عمارة ، عن وهب بن ربيعة ، عن عبد الله ، قال: كنت مستترا باستار الكعبة، فجاء ثلاثة نفر، ثقفي وختناه قرشيان، كثير شحم بطونهم، قليل فقه قلوبهم، قال: فتحدثوا بينهم بحديث، قال: فقال احدهم: اترى الله عز وجل يسمع ما نقول؟! قال الآخر: يسمع ما رفعنا، وما خفضنا لا يسمع!! قال الآخر: إن كان يسمع شيئا، فهو يسمعه كله، قال: فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فنزلت: وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سورة فصلت آية 22 إلى قوله فما هم من المعتبين سورة فصلت آية 24".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مُسْتَتِرًا بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، ثَقَفِيٌّ وَخَتَنَاهُ قُرَشِيَّانِ، كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ، قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، قَالَ: فَتَحَدَّثُوا بَيْنَهُمْ بِحَدِيثٍ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتُرَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟! قَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ مَا رَفَعْنَا، وَمَا خَفَضْنَا لَا يَسْمَعُ!! قَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ شَيْئًا، فَهُوَ يَسْمَعُهُ كُلَّهُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَنَزَلَتْ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سورة فصلت آية 22 إِلَى قَوْلِهِ فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ سورة فصلت آية 24".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا تھا کہ تین آدمی آئے، ان میں سے ایک ثقفی تھا اور دو قبیلہ قریش کے جو اس کے داماد تھے، ان کے پیٹ میں چربی زیادہ تھی لیکن دلوں میں سمجھ بوجھ بہت کم تھی، وہ چپکے چپکے باتیں کرنے لگے جنہیں میں نہ سن سکا، اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا اللہ ہماری ان باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ جب ہم اونچی آواز سے باتیں کرتے ہیں تو وہ انہیں سنتا ہے اور جب ہم اپنی آوازیں بلند نہیں کرتے تو وہ انہیں نہیں سن پاتا، تیسرا کہنے لگا: اگر وہ کچھ سن سکتا ہے تو سب کچھ بھی سن سکتا ہے، میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ . . . . . فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ﴾» [فصلت: 22-24]”اور تم جو چیزیں چھپاتے ہو کہ تمہارے کان، آنکھیں اور کھالیں تم پر گواہ نہ بن سکیں . . . . . تو وہ معاف کیے گئے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔“
ابومعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کسی گورنر یا عام آدمی کو دو مرتبہ سلام پھیرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: تو نے اسے کہاں لٹکا دیا؟
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: لما نزلت هذه الآية: الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82، شق ذلك على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالوا: اينا لم يظلم نفسه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس كما تظنون، إنما هو كما قال لقمان لابنه: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: «﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ . . . . .﴾»[الأنعام: 82]”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا . . . . .“ تو لوگوں پر یہ بات بڑی شاق گزری اور وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کون شخص ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم مراد لے رہے ہو، کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو عبد صالح (حضرت لقمان علیہ السلام) نے فرمائی تھی کہ ”پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ اس آیت میں بھی شرک ہی مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، قالا: حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان" يسلم عن يمينه وعن يساره: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله، حتى يرى بياض خده". وقال عبد الرحمن: حتى نرى بياض خده من هاهنا، ونرى بياض خده من هاهنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ" يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ". وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: حَتَّى نَرَى بَيَاضَ خَدِّهِ مِنْ هَاهُنَا، وَنَرَى بَيَاضَ خَدِّهِ مِنْ هَاهُنَا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں اس طرح سلام پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قلت: يا رسول الله، اي العمل افضل؟ قال:" الصلاة لوقتها"، قال: قلت: ثم اي؟ قال:" بر الوالدين"، قال: قلت: ثم اي؟ قال:" الجهاد في سبيل الله عز وجل"، ولو استزدته لزادني.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" بِرُّ الْوَالِدَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسن سلوک“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد“، اگر میں مزید سوالات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ان کا جواب بھی مرحمت فرماتے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز عشا کے بعد باتیں کرنے کی اجازت کسی کو نہیں، سوائے دو آدمیوں کے، جو نماز پڑھ رہا ہو یا جو مسافر ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لإبهام راويه عن ابن مسعود.