سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شراب کے برتنوں سے منع فرمایا: ”تو لوگوں نے عرض کیا کہ ہر آدمی کے پاس تو مشکیزہ نہیں ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " مزفت " کو چھوڑ کر مٹکے کی اجازت دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خلتان من حافظ عليهما، ادخلتاه الجنة وهما يسير، ومن يعمل بهما قليل"، قالوا: وما هما يا رسول الله؟ قال:" ان تحمد الله وتكبره وتسبحه في دبر كل صلاة مكتوبة عشرا عشرا، وإذا اتيت إلى مضجعك تسبح الله وتكبره وتحمده مائة مرة، فتلك خمسون ومائتان باللسان، والفان وخمس مائة في الميزان، فايكم يعمل في اليوم والليلة الفين وخمس مائة سيئة؟" قالوا: كيف من يعمل بها قليل؟ قال:" يجيء احدكم الشيطان في صلاته، فيذكره حاجة كذا وكذا، فلا يقولها، وياتيه عند منامه، فينومه، فلا يقولها"، قال: ورايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقدهن بيده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلَّتَانِ مَنْ حَافَظَ عَلَيْهِمَا، أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ وَهُمَا يَسِيرٌ، وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ"، قَالُوا: وَمَا هُمَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَنْ تَحْمَدَ اللَّهَ وَتُكَبِّرَهُ وَتُسَبِّحَهُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ عَشْرًا عَشْرًا، وَإِذَا أَتَيْتَ إِلَى مَضْجَعِكَ تُسَبِّحُ اللَّهَ وَتُكَبِّرُهُ وَتَحْمَدُهُ مِائَةَ مَرَّةٍ، فَتِلْكَ خَمْسُونَ وَمِائَتَانِ بِاللِّسَانِ، وَأَلْفَانِ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، فَأَيُّكُمْ يَعْمَلُ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ أَلْفَيْنِ وَخَمْسَ مِائَةِ سَيِّئَةٍ؟" قَالُوا: كَيْفَ مَنْ يَعْمَلُ بِهَا قَلِيل؟ قَالَ:" يَجِيءُ أَحَدَكُمْ الشَّيْطَانُ فِي صَلَاتِهِ، فَيُذَكِّرُهُ حَاجَةَ كَذَا وَكَذَا، فَلَا يَقُولُهَا، وَيَأْتِيهِ عِنْدَ مَنَامِهِ، فَيُنَوِّمُهُ، فَلَا يَقُولُهَا"، قَالَ: وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهُنَّ بِيَدِه.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو خصلتیں جنت میں پہنچا دیتی ہیں بہت آسان ہیں اور عمل میں بہت تھوڑی ہیں صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تو یہ کہ ہر فرض نماز کے بعد دس دس مرتبہ الحمدللہ اللہ اکبر سبحان اللہ کہہ لیا کرو اور دوسرا یہ کہ جب اپنے بستر پر پہنچو تو سو مرتبہ سبحان للہ اللہ اکبر اور الحمدللہ کہہ لیا کرو، پانچوں نمازوں اور رات کے اس عدد کو ملا کر زبان سے تو یہ کلمات ڈھائی سو مرتبہ ادا ہوں گے لیکن میزان عمل میں یہ ڈھائی ہزار کے برابر ہوں گے اب تم میں سے کون شخص ایسا ہے جو دن رات میں دھائی ہزار گناہ کرتا ہو گا؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کلمات عمل کر نے والے کے لئے تھوڑے کیسے ہوئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان دوران نماز آ کر اسے مختلف کام کرواتا ہے اور وہ ان میں الجھ کر یہ کلمات نہیں کہہ پاتا اسی طرح سوتے وقت اس کے پاس آتا ہے اور اسے یوں سلا دیتا ہے اور وہ ان اس وقت بھی یہ کلمات نہیں کہہ پاتا، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ان کلمات کو اپنی انگلیوں پر گن کر پڑھا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الرحمن بن زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: إني لاسير مع معاوية في منصرفه من صفين، بينه وبين عمرو بن العاص، قال: فقال عبد الله بن عمرو بن العاص : يا ابت، ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعمار:" ويحك يا ابن سمية! تقتلك الفئة الباغية؟" قال: فقال عمرو لمعاوية: الا تسمع ما يقول هذا؟ فقال معاوية: لا تزال تاتينا بهنة، انحن قتلناه؟! إنما قتله الذين جاءوا به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: إِنِّي لَأَسِيرُ مَعَ مُعَاوِيَةَ فِي مُنْصَرَفِهِ مِنْ صِفِّينَ، بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : يَا أَبَتِ، مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَمَّارٍ:" وَيْحَكَ يَا ابْنَ سُمَيَّةَ! تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ؟" قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو لِمُعَاوِيَةَ: أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ هَذَا؟ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَا تَزَالُ تَأْتِينَا بِهَنَةٍ، أَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟! إِنَّمَا قَتَلَهُ الَّذِينَ جَاءُوا بِهِ.
سیدنا بن حارث کہتے ہیں کہ جب سیدہ امیر معاویہ و رضی اللہ عنہ جنگ صفین سے فارغ ہو کر آ رہے تھے تو میں ان کے اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے درمیان چل رہا تھا سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد سے کہنے لگے اباجان کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا کہ افسوس! اے سمیہ کے بیٹے تجھے ایک باغی گروہ قتل کر دے گا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ اس کی بات سن رہے ہیں؟ سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم ہمیشہ ایسی ہی پریشان کن خبریں لے آنا کیا ہم نے انہیں شہید کیا ہے؟ انہوں تو ان لوگوں نے ہی شہید کیا ہے جو انہیں لے کر آئے تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی امام کی بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے جھگڑے کے لئے آئے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي السفر ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: مر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن نصلح خصا لنا، فقال:" ما هذا؟" قلنا خصا لنا وهى، فنحن نصلحه، قال: فقال:" اما إن الامر اعجل من ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصْلِحُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" قُلْنَا خُصًّا لَنَا وَهَى، فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: فَقَالَ:" أَمَا إِنَّ الْأَمْرَ أَعْجَلُ مِنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا ہم اس وقت اپنی جھونپڑی صحیح کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہماری جھونپڑی کچھ کمزور ہو گئی ہے اب اسے ٹھیک کر رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”معاملہ اس سے زیادہ جلدی کا ہے (موت کا کسی کو علم نہیں)
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة ، قال: انتهيت إلى عبد الله بن عمرو بن العاص ، وهو جالس في ظل الكعبة، فسمعته يقول: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، إذ نزل منزلا، فمنا من يضرب خباءه، ومنا من هو في جشره، ومنا من ينتضل، إذ نادى مناديه الصلاة جامعة، قال: فاجتمعنا، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخطبنا، فقال:" إنه لم يكن نبي قبلي إلا دل امته على ما يعلمه خيرا لهم، ويحذرهم ما يعلمه شرا لهم، وإن امتكم هذه جعلت عافيتها في اولها، وإن آخرها سيصيبهم بلاء شديد وامور تنكرونها، تجيء فتن يرقق بعضها لبعض، تجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، ثم تجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه، ثم تنكشف، فمن سره منكم ان يزحزح عن النار، وان يدخل الجنة، فلتدركه موتته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليات إلى الناس الذي يحب ان يؤتى إليه، ومن بايع إماما، فاعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه ما استطاع، فإن جاء آخر ينازعه، فاضربوا عنق الآخر"، قال: فادخلت راسي من بين الناس، فقلت: انشدك بالله، آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فاشار بيده إلى اذنيه، فقال: سمعته اذناي، ووعاه قلبي، قال: فقلت: هذا ابن عمك معاوية، يعني يامرنا باكل اموالنا بيننا بالباطل، وان نقتل، انفسنا، وقد قال الله تعالى: يايها الذين آمنوا لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل سورة النساء آية 29، قال: فجمع يديه، فوضعهما على جبهته، ثم نكس هنية، ثم رفع راسه، فقال: اطعه في طاعة الله، واعصه في معصية الله عز وجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا دَلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُحَذِّرُهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ شَدِيدٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ، تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ سَرَّهُ مِنْكُمْ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَأَنْ يُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ"، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَعْنِي يَأْمُرُنَا بِأَكْلِ أَمْوَالِنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ، أَنْفُسَنَا، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ سورة النساء آية 29، قَالَ: فَجَمَعَ يَدَيْهِ، فَوَضَعَهُمَا عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ نَكَسَ هُنَيَّةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچاوہ اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ہم میں سے بعض لوگوں نے خیمے لگا لئے بعض چراگاہ میں چلے گئے اور بعض تیراندازی کر نے لگے اچانک ایک منادی نداء کر نے لگا کہ نماز تیار ہے ہم لوگ اسی وقت جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دوران خطبہ ارشاد فرمایا: ”کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کر ام (علیہم السلام) گزرے ہیں وہ اپنی امت کے لئے جس چیز کو خیر سمجھتے تھے انہوں نے وہ سب چیزیں اپنی امت کو بتادیں اور جس چیز کو شر سمجھتے تھے اس سے انہیں خبردار کر دیا اور اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھی گئی ہے اور اس امت کے آخری لوگوں کو سخت مصائب اور عجیب و غریب امور کا سامنا ہو گا ایسے فتنے رو نما ہوں گے جو ایک دوسرے کے لئے نرم کر دیں گے مسلمان پر آزمائش آئے گی تو وہ کہے گا کہ یہ میری موت کا سبب بن کر رہے گی اور کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچالیا جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے تو اسے اس حال میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کو وہ دے جو خود لینا پسند کرتا ہو اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے جھگڑے کے لئے آئے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر لوگوں میں گھسا کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتاہوں کیا یہ بات آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”میرے دونوں کانوں نے یہ بات سنی اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کے چچازادبھائی (وہ سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے گمان کے مطابق مرادلے رہا تھا جب کہ حقیقت اس کے برخلاف تھی) ہمیں غلط طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور اپنے آپ کو قتل کر نے کا حکم دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نہ کھاؤ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ جمع کر کے پیشانی پر رکھ لئے اور تھوڑی دیر کو سر جھکالیا پھر سر اٹھا کر فرمایا: ”کہ اللہ کی اطاعت کے کاموں میں ان کی بھی اطاعت کرو اور اللہ کی معصیت کے کاموں میں ان کی بھی نافرمانی کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےتکلف یا بتکلف بےحیائی کر نے والے نہ تھے اور وہ فرمایا: ”کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا يحيى بن ابي إسحاق ، حدثني عبدة بن ابي لبابة ، عن حبيب بن ابي ثابت ، حدثني ابو عبد الله مولى عبد الله بن عمرو، حدثنا عبد الله بن عمرو بن العاص ونحن نطوف بالبيت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من ايام احب إلى الله العمل فيهن من هذه الايام"، قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال:" ولا الجهاد في سبيل الله، إلا من خرج بنفسه وماله، ثم لم يرجع حتى تهراق مهجة دمه"، قال: فلقيت حبيب بن ابي ثابت، فسالته عن هذا الحديث، فحدثني بنحو من هذا الحديث، قال: وقال عبدة: هي الايام العشر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَنَحْنُ نَطُوفُ بِالْبَيْتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ"، قِيلَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا مَنْ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ حَتَّى تُهَرَاقَ مُهْجَةُ دَمِهِ"، قَالَ: فَلَقِيتُ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي بِنَحْوٍ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدَةُ: هِيَ الْأَيَّامُ الْعَشْرُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران طواف یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان ایام کے علاوہ کسی اور دن میں اللہ کو نیک اعمال اتنے زیادہ نہیں جتنے ان ایام میں ہیں کسی نے پوچھا جہاد فی سبیل اللہ ہی نہیں فرمایا: ”ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور واپس نہ آسکا یہاں تک کہ اس کا خون بہادیا گیا راوی کہتے ہیں کہ " ان ایام " سے مرادعشرہ ذی الحجہ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو عبد الله مولي عبد الله بن عمرو مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو پھر مسلسل کمی کرتے ہوئے سات دن تک آگئے۔