(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن حصين بن عبد الرحمن ، ومغيرة الضبي ، عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: زوجني ابي امراة من قريش، فلما دخلت علي جعلت لا انحاش لها، مما بي من القوة على العبادة من الصوم والصلاة، فجاء عمرو بن العاص إلى كنته، حتى دخل عليها، فقال لها: كيف وجدت بعلك؟ قالت: خير الرجال، او كخير البعولة، من رجل لم يفتش لنا كنفا، ولم يعرف لنا فراشا! فاقبل علي، فعذمني وعضي بلسانه، فقال: انكحتك امراة من قريش ذات حسب، فعضلتها، وفعلت وفعلت! ثم انطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فشكاني، فارسل إلي النبي صلى الله عليه وسلم، فاتيته، فقال لي:" اتصوم النهار؟" قلت: نعم، قال:" وتقوم الليل؟" قلت: نعم، قال:" لكني اصوم وافطر، واصلي وانام، وامس النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني"، قال:" اقرإ القرآن في كل شهر"، قلت: إني اجدني اقوى من ذلك، قال:" فاقراه في كل عشرة ايام"، قلت: إني اجدني اقوى من ذلك، قال احدهما: إما حصين وإما مغيرة، قال:" فاقراه في كل ثلاث"، قال: ثم قال:" صم في كل شهر ثلاثة ايام"، قلت: إني اقوى من ذلك، قال: فلم يزل يرفعني حتى قال:" صم يوما وافطر يوما، فإنه افضل الصيام، وهو صيام اخي داود صلى الله عليه وسلم"، قال حصين في حديثه: ثم قال صلى الله عليه وسلم:" فإن لكل عابد شرة، ولكل شرة فترة، فإما إلى سنة، وإما إلى بدعة، فمن كانت فترته إلى سنة، فقد اهتدى، ومن كانت فترته إلى غير ذلك، فقد هلك"، قال مجاهد: فكان عبد الله عمرو حيث ضعف وكبر، يصوم الايام كذلك، يصل بعضها إلى بعض، ليتقوى بذلك، ثم يفطر بعد تلك الايام، قال: وكان يقرا في كل حزبه كذلك، يزيد احيانا وينقص احيانا، غير انه يوفي العدد، إما في سبع، وإما في ثلاث، قال: ثم كان يقول بعد ذلك: لان اكون قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي مما عدل به او عدل، لكني فارقته على امر اكره ان اخالفه إلى غيره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَمَغِيرَةَ الضَّبَّيَّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً مَنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيَّ جَعَلْتُ لا أَنْحَاشِ لهَا، ممَّا بِي مِنَ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ مِنَ الصَّوْمِ وِالصَّلاة، فَجَاءَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى كَنَّتِهِ، حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهَا: كَيْفَ وَجَدْتِ بَعْلكِ؟ قَالَتْ: خَيْرَ الرَّجَالِ، أَوْ كَخَيْرِ الْبُعُولَةِ، مِنْ رَجُلِ لَمْ يُفَتَّشْ لَنَا كَنَفاً، وَلَمْ يَعْرِفْ لَنَا فِرَاشاً! فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَعَذَمَنِي وَعَضَّيِ بِلِسَانِهِ، فَقَالَ: أَنْكَحْتُكَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ، فَعَضَلْتَهَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَانِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فّأَتَيْتُهُ، فَقَالَ لِي:" أَتَصُومُ النَّهَارَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" وتَقُومُ اللَّيْل؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لَكَّنِي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلَّي وَأَنَامُ، وَأَمَسُّ النَّسَاء، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنَّي"، قَالَ:" اقرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلَ ّشَهْرٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلَّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: إِمَّا حُصَيْنٌ وَإِمَّا مُغِيرَةُ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلَّ ثَلاَثٍ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" صُمْ فِي كُلَّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يَرْفَعُنِي حَتَّى قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَافْطرْ يَومًا، فَإِنَّهْ أَفْضَلُ الصيَّامٍ، وَهُوَ صِيَامُ أَخِي دَاوُد صَلَّى اللهُ عَلَيَهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ حُصَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: ثُمَّ قال صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإنَّ لكُلَّ عَابِدٍ شِرَّةً، وَلِكُلَّ شِرَّةً فَتْرةً، فَإِمَّا إِلَى سُنَّةٍ، وَإَمَّا إِلَى بدْعَةٍ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّةٍ، فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَقَدْ هَلَكَ"، قَالَ مُجَاهِدٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللهِ عَمْرٍو حَيْثُ ضَعُفَ وَكَبِر، يَصُومُ الأيَّامَ كَذَلِكَ، يَصِلُ بَعْضَهَا إِلى بَعْضٍ، لِيَتَقَوَّى بَذَلِكَ، ثُمَّ يُفْطِرُ بِعَدَّ تِلْكَ الأيَّامِ، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِي كُلَّ حِزْبِهِ كَذَلِكَ، يزِيدُ أَحْيَانًا ويَنْقُصُ أَحْيَاناً، غَيْرَ أَنَّهُ يُوفِي الْعَدَدَ، إِمَّا فِي سَبْعٍ، وإِمَّا فِي ثَلاثَ، قَالَ: ثُمَّ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ: لان أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ علَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ أَوْ عَدَلَ، لَكِنَّي فَارَقْتُهُ عَلَى أَمْرٍ أَكْرَهُ أَنْ أُخَالِفَهُ إِلَى غَيْرِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے والد نے قریش کی ایک خاتون سے میری شادی کر دی میں جب اس کے پاس گیا تو عبادات میں مثلاً نماز، روزے کی طاقت اور شوق کی وجہ سے میں نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی، اگلے دن میرے والد سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے جواب دیا بہترین شوہر جس نے میرے سائے کی بھی جستجو نہ کی اور میرا بستر بھی نہ پہنچانا یہ سن کروہ میرے پاس آئے اور مجھے خوب ملامت کی اور زبان سے کاٹ کھانے کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے تیرا نکاح قریش کی ایک اچھے حسب نسب والی خاتون سے کیا اور تو نے اس لاپروائی کی اور یہ کیا اور یہ کیا۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شکایت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا میں حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا تم دن میں روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم رات میں قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں کے پاس بھی جاتا ہوں جو شخص میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہر مہینے میں صرف ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تین راتوں میں مکمل کر لیا کرو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو۔ یہ بہترین روزہ ہے اور یہ میرے بھائی سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر عابد میں ایک تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا ایک انقطاع ہوتا ہے یا سنت کی طرف یا بدعت کی طرف جس کا انقطاع سنت کی طرف تو وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کا انقطاع کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔
مجاہدرحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تب بھی اسی طرح یہ روزے رکھتے رہے اور بعض اوقات کئی کئی روزے اکٹھے کر لیتے تاکہ ایک سے دوسرے کو تقویت رہے پھر اتنے دنوں کے شمار کے مطابق ناغہ کر لیتے اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت میں بھی بعض اوقات کمی بیشی کر لیتے البتہ سات یا تین کا عددضرور پورا کرتے تھے اور بعد میں کہا کرتے تھے کہ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول کر لیتا تو اس سے اعراض کر نے سے زیادہ مجھے پسند ہوتا لیکن اب مجھے یہ گوار انہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس حال میں جدائی ہوئی ہو اس کی خلاف ورزی کروں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف نسبت کر کے کوئی ایسی بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئےنیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب جوئے شطرنج اور چینا کی شراب کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا: ”ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عمرو بن الوليد مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روئے زمین پر جو آدمی بھی یہ کہہ لے لاالہ الا اللہ اللہ اکبر، سبحان اللہ الحمدللہ لاحول ولاقوۃ الاباللہ، یہ جملے اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، إلا أنه اختلف فى رفعه و وقفه، والموقوف أصح
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال ابي : حدثنا الحضرمي ، عن القاسم بن محمد ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا من المسلمين استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراة يقال لها: ام مهزول، وكانت تسافح، وتشترط له ان تنفق عليه، قال: فاستاذن رسول الله صلى الله علي وسلم، او ذكر له امرها؟ قال: فقرا عليه نبي الله صلى الله عليه وسلم: والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك سورة النور آية 3".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُليْمَانَ ، قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا الْحَضْرمِيُّ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّد ، عنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا منْ المُسْلِمِينَ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلّّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلَّمَ فِي امْرَأة يُقًالُ لَهَا: أُمُّ مَهْزُولٍ، وَكَانَتْ تُسَافِحُ، وَتَشْتَرِطُ لَهُ أَنْ تُنْفِقَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيِْ وَسَلَّمَ، أَوْ ذَكَرَ لَهُ أَمْرهَا؟ قَالَ: فَقَرَأَ عَلَيْهِ نَبِي اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " ام مہزول " نامی ایک عورت تھی جو بدکاری کر تی تھی اور بدکاری کر نے والے سے اپنے نفقہ کی شرط کروا لیتی تھی ایک مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے قریب ہونے کی اجازت لینے کے لئے آیا یا یہ کہ اس نے اس کا تذکر ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ زانیہ عورت سے وہی نکاح کرتا ہے جو خود زانی ہو یا مشرک ہو۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الحضرمي شيخ سليمان بن طرخان والد معتمر
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی جسمانی طور پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا ہے وہ ہر دن رات لکھتے رہو تا وقتیکہ وہ میری حفاظت میں رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن فضيل ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عبد الله بن عمرو ، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام وقمنا معه فاطال القيام، حتى ظننا انه ليس براكع، ثم ركع، فلم يكد يرفع راسه، ثم رفع، فلم يكد يسجد، ثم سجد، فلم يكد يرفع راسه، ثم جلس، فلم يكد يسجد، ثم سجد، فلم يكد يرفع راسه، ثم فعل في الركعة الثانية كما فعل في الاولى، وجعل ينفخ في الارض، ويبكي، وهو ساجد في الركعة الثانية، وجعل يقول:" رب لم تعذبهم وانا فيهم؟ رب لم تعذبنا ونحن نستغفرك؟" فرفع راسه وقد تجلت الشمس، وقضى صلاته، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ايها الناس، إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله عز وجل، فإذا كسف احدهما، فافزعوا إلى المساجد، فوالذي نفسي بيده لقد عرضت علي الجنة، حتى لو اشاء لتعاطيت بعض اغصانها، وعرضت علي النار، حتى إني لاطفئها خشية ان تغشاكم، ورايت فيها امراة من حمير، سوداء طوالة، تعذب بهرة لها تربطها، فلم تطعمها ولم تسقها، ولا تدعها تاكل من خشاش الارض، كلما اقبلت نهشتها، ورايت فيها اخا بني دعدع، ورايت صاحب المحجن متكئا في النار على محجنه، كان يسرق الحاج بمحجنه، فإذ علموا به قال: لست اسرقكم، إنما تعلق بمحجني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عََهْدِ رَسُولِ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ فَأَطَالَ الْقيَام، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَيْسَ بِرَاكِعٍ، ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمْ يكَدْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرَفَعُ رأْسَهًُ، ثُمَّ جَلَسَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسَجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرَفْعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ فَعَلَ في الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ كَمَا فَعَلَ فِي الْأُولَى، وَجَعَلَ يَنْفُخُ في الْأَرْضِ، وَيَبْكِي، وَهُوَ سَاجِدٌ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانَيَةِ، وَجَعَلَ يَقُولُ:" رَبَّ لِمَ تُعَذَّبُهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ رَبَّ لِمَ تُعَذَّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُكَ؟" فَرَفَعَ رَأْسَهُ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ، وَقَضَى صَلَاتَهُ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مَنْ آيَاتِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا كَسَفَ أَحَدُهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الْمَسَاجِدِ، فَوَالَّذي نَفْسَي بِيَدِهِ لَقَدْ عرضت عَلَيَّ الْجَنَّةُ، حَتَّى لَوْ أَشَاءُ لَتَعَاطَيْتُ بَعْضَ أَغْصَانِهَا، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، حَتَّى إِنَّي لَأُطْفئُهَا خَشْيَةَ أَنْ تَغْشَاكُمْ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ حَمْيَر، سَوْدَاءَ طُوَالَةً، تُعَذَّبُ بِهِرَّةً لَهَا تَرْبِطُهَا، فَلمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقْهَا، وَلَا تَدَعُهَا تَأْكُلُ مَنْ خَشَاشِ الْأرْضِ، كُلَّمَا أَقْبَلَتْ نَهَشَتْهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دَعْدَعٍ، وَرَأَيْتُ صَاحبَ الْمحْجَنِ مُتَّكئاً فِي النَّارِ عَلَى مِحْجَنِهِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بَمَحْجَنِهِ، فَإِذ عَلِمُوا بِهِ قَالَ: لَسْتُ أَسْرِقُكُمْ، إِنَّما تَعَلَّقّ بِمِحًجَنِي".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع نہیں کر یں گے پھر رکوع کیا تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدے میں جاتے ہوئے نہ لگے سجدے میں چلے گئے تو ایسا لگا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھائیں گے پھر بیٹھے تو یوں محسوس ہوا کہ اب سجدہ نہیں کر یں گے پھر دوسرا سجدہ کیا تو اس سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر پھونکتے جاتے تھے اور دوسری رکعت کے سجدے میں یہ کہتے جاتے تھے کہ پروردگار تو میری موجودگی میں انہیں عذاب دے گا؟ پروردگار ہماری طلب بخشش کے باوجود تو ہمیں عذاب دے گا؟ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل فرمائی اور اللہ کی حمد وثناء کر نے کے بعد فرمایا: ”۔ لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو گہن لگ جائے تو مسجدوں کی طرف ڈورو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور اسے میرے اتناقریب کر دیا گیا کہ اگر میں اس کی کسی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا اسی طرح جہنم کو بھی میرے سامنے پیش کیا گیا اور اسے میرے اتنا قریب کر دیا گیا کہ میں اسے بجھانے لگا اس خوف سے کہ کہیں وہ تم پر نہ آپڑے اور میں نے جہنم میں قبیلہ حمیر کی ایک عورت کو دیکھاجو سیاہ رنگت اور لمبے قد کی تھی اسے اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا نہ خودا سے کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی وہ عورت جب بھی آگے بڑھتی تو جہنم میں وہی بلی اسے ڈستی اور اگر پیچھے ہٹتی تو اسے پیچھے سے ڈستی نیز میں نے وہاں بنو دعدع کے ایک آدمی کو بھی دیکھا اور میں نے لاٹھی والے کو بھی دیکھاجو جہنم میں اپنی لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے تھا یہ شخص اپنی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا اور جب حاجیوں کو پتہ چلتا تو کہہ دیتا کہ میں نے اسے چرایا تھوڑی ہے یہ چیز تو میری لاٹھی کے ساتھ چپک کر آگئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا معمر ، حدثنا ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا على راحلته بمنى، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الحلق قبل الذبح، فحلقت قبل ان اذبح؟ قال:" اذبح ولا حرج"، ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الذبح قبل الرمي، فذبحت قبل ان ارمي؟ فقال:" ارم ولا حرج"، قال: فما سئل عن شيء قدمه رجل قبل شيء، إلا قال:" افعل ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ بِمِنًى، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُرَى أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُرَى أَنَّ الذَّبْحَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ فَقَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قَدَّمَهُ رَجُلٌ قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروالیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاکر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں عدل و انصاف کر نے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل و انصاف کی برکت سے رحمان کے سامنے موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میری طرف سے آگے پہنچادیا کرو خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل کی باتیں بھی ذکر کر سکتے ہو کوئی حرج نہیں اور جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لینا چاہئے۔