سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو نخع کے اس قبیلے کے لئے دعا یا تعریف فرما رہے تھے حتی کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش! میں بھی ان ہی میں سے ہوتا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت تناول فرماتے ہوئے دیکھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھانے کھڑے ہو گئے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، عبيدالله لم يدرك عم أبيه عبدالله بن مسعود.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان کے بھینچنے سے، اس کے تھوک اور اس کی پھونک سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، راوی کہتے ہیں کہ بھینچنے سے مراد موت ہے، تھوک سے مراد شعر اور پھونک سے مراد تکبر ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين.
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا محمد بن طلحة ، عن زبيد ، عن مرة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: حبس المشركون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة العصر حتى اصفرت او احمرت الشمس، فقال:" شغلونا عن صلاة الوسطى، ملا الله اجوافهم او حشا الله اجوافهم وقبورهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: حَبَسَ الْمُشْرِكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى اصْفَرَّتْ أَوْ احْمَرَّتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، مَلَأَ اللَّهُ أَجْوَافَهُمْ أَوْ حَشَا اللَّهُ أَجْوَافَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر پڑھنے کی مہلت نہ دی، حتی کہ سورج غروب ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان کے بھینچنے سے، اس کے تھوک اور اس کی پھونک سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، راوی کہتے ہیں کہ بھینچنے سے مراد موت ہے، تھوک سے مراد شعر اور پھونک سے مراد تکبر ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد سمع من عطاء بعد الاختلاط.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يخرج قوم في آخر الزمان، سفهاء الاحلام، احداث او قال: حدثاء الاسنان، يقولون من خير قول الناس، يقرءون القرآن بالسنتهم لا يعدو تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، فمن ادركهم، فليقتلهم، فإن في قتلهم اجرا عظيما عند الله، لمن قتلهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، أَحْدَاثٌ أَوْ قَالَ: حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُو تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ أَدْرَكَهُمْ، فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا عِنْدَ اللَّهِ، لِمَنْ قَتَلَهُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آخر زمانے میں ایک ایسی قوم کا خروج ہو گا جو بیوقوف اور نوعمر ہو گی، یہ لوگ انسانوں میں سے سب سے بہتر انسان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات کریں گے اور اپنی زبانوں سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہ جاتی ہو گی، یہ لوگ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، جو شخص انہیں پائے تو انہیں قتل کر دے کیونکہ ان کے قتل کرنے پر قاتل کے لئے اللہ کے یہاں بڑا ثواب ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا زائدة ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن زر ، عن عبد الله ، قال:" اول من اظهر إسلامه سبعة: رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، وعمار، وامه سمية، وصهيب، وبلال، والمقداد، فاما رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنعه الله بعمه ابي طالب، واما ابو بكر، فمنعه الله بقومه، واما سائرهم فاخذهم المشركون، فالبسوهم ادراع الحديد، وصهروهم في الشمس، فما منهم إنسان إلا وقد واتاهم على ما ارادوا، إلا بلال، فإنه هانت عليه نفسه في الله، وهان على قومه، فاعطوه الولدان، واخذوا يطوفون به شعاب مكة، وهو يقول: احد، احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" أَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلَالٌ، وَالْمِقْدَادُ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِعَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ فَأَخَذَهُمْ الْمُشْرِكُونَ، فَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيدِ، وَصَهَرُوهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ إِنْسَانٌ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلَى مَا أَرَادُوا، إِلَّا بِلَالٌ، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللَّهِ، وَهَانَ عَلَى قَوْمِهِ، فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، وَأَخَذُوا يَطُوفُونَ بِهِ شِعَابَ مَكَّةَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَحَدٌ، أَحَدٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کرنے والے سات افراد تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا، سیدنا صہیب، سیدنا بلال اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہم، جن میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اللہ نے ان کے چچا ابوطالب کے ذریعے کروائی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ان کی قوم کے ذریعے اور جو باقی بچے انہیں مشرکین نے پکڑ لیا، وہ انہیں لوہے کی زرہیں پہناتے اور دھوپ میں تپنے کے لئے چھوڑ دیتے، ان میں سے سوائے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان کی خواہش کے مطابق نہ چلا ہو، کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تو اپنی ذات کو اللہ کے معاملے میں فنا کر دیا تھا اور انہیں ان کی قوم کی وجہ سے ذلیل کیا جاتا تھا، قریش انہیں بچوں کے حوالے کر دیتے، اور وہ انہیں مکہ مکرمہ کی گلیوں میں لئے پھرتے تھے لیکن سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پھر بھی احد، احد کہتے تھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما رکھا تھا: ”میری طرف سے تمہیں اس بات کی اجازت ہے کہ میرے گھر کا پردہ اٹھا کر اندر آ جاؤ اور میری راز کی باتوں کو سن لو، تاآنکہ میں خود تمہیں منع کر دوں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا رکھا تھا: ”میری طرف سے تمہیں اس بات کی اجازت ہے کہ میرے گھر کا پردہ اٹھا کر اند آ جاؤ۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2169، وهذا إسناد ضعيف لابهام من سمع منه سليمان.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو قطن ، حدثنا المسعودي ، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الرحمن بن عبد الله ، قال:" نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا، فانطلق إنسان إلى غيضة، فاخرج منها بيض حمرة، فجاءت الحمرة ترف على راس رسول الله صلى الله عليه وسلم ورءوس اصحابه، فقال:" ايكم فجع هذه؟" فقال رجل من القوم: انا اصبت لها بيضا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اردده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَانْطَلَقَ إِنْسَانٌ إِلَى غَيْضَةٍ، فَأَخْرَجَ مِنْهَا بَيْضَ حُمَرَةٍ، فَجَاءَتْ اَلْحُمَرَةُ تَرِفُّ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُءُوسِ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:" أَيُّكُمْ فَجَعَ هَذِهِ؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا أَصَبْتُ لَهَا بَيْضًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْدُدْهُ".
عبدالرحمن بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، اس دوران ایک شخص ایک جھاڑی کی طرف چلا گیا، وہاں اسے ”لال“(ایک پرندہ کا گھونسلہ نظر آیا)، اس نے اس کے انڈے نکال لئے، اتنی دیر میں وہ چڑیا آئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سروں پر منڈلانے اور چلانے لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے اسے تنگ کیا ہے؟“ وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس کے انڈے لے آیا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں واپس کر دو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإرساله، عبدالرحمن تابعي.