سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ نزع کی کیفیت طاری ہونے سے پہلے تک بھی قبول فرما لیتا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قبیلہ غفار اللہ اس کی بخشش کرے قبیلہ اسلم اللہ اسے سلامت رکھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا إسحاق بن سعيد القرشي ، عن ابيه ، قال: كنت عند ابن عمر ، فجاءه رجل، فقال: ممن انت؟ قال: من اسلم , قال: الا ابشرك يا اخا اسلم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" غفار غفر الله لها، واسلم سالمها الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَسْلَمَ , قَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ يَا أَخَا أَسْلَمَ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" غِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ".
سعید بن عمرورحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا قبیلہ اسلم سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”اے اسلمی بھائی! کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قبیلہ غفار اللہ اس کی بخشش فرمائے اور قبیلہ اسلم اللہ اسے سلامت رکھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا حماد ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا يبيع الرجل على بيع اخيه، ولا يخطب على خطبة اخيه، إلا بإذنه"، وربما قال:" ياذن له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ"، وَرُبَّمَا قَالَ:" يَأْذَنَ لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح نہ بھیجے الاّیہ کہ اسے اس کی اجازت مل جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا صفوان بن عيسى ، اخبرنا اسامة بن زيد ، عن نافع ، عن عبد الله , ان النبي صلى الله عليه وسلم , اتخذ خاتما من ذهب، فجعله في يمينه، وجعل فصه مما يلي باطن كفه، فاتخذ الناس خواتيم الذهب، قال: فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فالقاه ," ونهى عن التختم بالذهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ، وَجَعَلَ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي بَاطِنَ كَفِّهِ، فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ الذَّهَبِ، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَأَلْقَاهُ ," وَنَهَى عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اس کا نگینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیلی کی طرف کر لیتے تھے، لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر اسے پھینک دیا اور فرمایا: ”میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف کر لیتا تھا واللہ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابي ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: واصل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فواصل الناس، فنهاهم، فقالوا: يا رسول الله، فإنك تواصل؟! فقال:" إني لست كهيئتكم، إني اطعم واسقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: وَاصَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاصَلَ النَّاسُ، فَنَهَاهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ؟! فَقَالَ:" إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں ایک ہی سحری سے مسلسل کئی روزے رکھے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کر نے سے روکا تو وہ کہنے لگے کہ آپ ہمیں تو مسلسل کئی دن کا روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں اور خود رکھ رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے تو اللہ کی طرف سے کھلا پلا دیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من حلف فاستثنى، فإن شاء مضى، وإن شاء رجع غير حنث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى، فَإِنْ شَاءَ مَضَى، وَإِنْ شَاءَ رَجَعَ غَيْرَ حَنِثٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے غالباً مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص قسم کھاتے وقت انشاء اللہ کہہ لے اسے اختیار ہے اگر اپنی قسم پوری کرنا چاہے تو کر لے اور اگر اس سے رجوع کرنا چاہے تو حانث ہوئے بغیر رجوع کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر , ان عائشة ساومت بريرة، فرجع النبي صلى الله عليه وسلم من الصلاة، فقالت: ابوا ان يبيعوها إلا ان يشترطوا الولاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الولاء لمن اعتق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ عَائِشَةَ سَاوَمَتْ بَرِيرَةَ، فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، فَقَالَتْ: أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوهَا إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بریرہ رضی اللہ عنہ کو خریدنے کے لئے بھاؤ تاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کرواپس آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہ کے مالک نے انہیں بیچنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ولاء ہمیں ملے تو ہم بیچ دیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرتا ہے۔
سعید بن جبیررحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مٹکے کی نبیذ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ آپ کو ابو عبدالرحمن پر تعجب نہیں ہوتا ان کا خیال ہے کہ مٹکے کی نبیذ کو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”انہوں نے سچ کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے میں نے پوچھا " مٹکے " سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”ہر وہ چیز جو پکی مٹی سے بنائی جائے۔