محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار دونوں نے ان سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ذکر کی ہے گو کہ اس مجلس میں ان دونوں کے ساتھ میں بھی موجود تھا لیکن میں چھوٹا بچہ تھا اس لئے اسے یاد نہ رکھ سکا کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وتروں کے متعلق دریافت کیا؟ اور پوری حدیث ذکر کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی آخری نماز وتر کو بنانے کا حکم دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 998، م: 751، وهذا إسناد حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن ابن عمر , انه كان إذا سئل عن الوتر , قال: اما انا فلو اوترت قبل ان انام، ثم اردت ان اصلي بالليل، شفعت بواحدة ما مضى من وتري، ثم صليت مثنى مثنى، فإذا قضيت صلاتي اوترت بواحدة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امر ان يجعل آخر صلاة الليل الوتر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الْوَتْرِ , قَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ أَوْتَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ، ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ بِاللَّيْلِ، شَفَعْتُ بِوَاحِدَةٍ مَا مَضَى مِنْ وِتْرِي، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا قَضَيْتُ صَلَاتِي أَوْتَرْتُ بِوَاحِدَةٍ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ أَنْ يُجْعَلَ آخِرَ صَلَاةِ اللَّيْلِ الْوَتْرُ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب وتر کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے کہ میں تو اگر سونے سے پہلے وتر پڑھنا چاہوں پھر رات کی نماز کا ارادہ بھی بن جائے تو میں وتر کی پڑھی گئی رکعت کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لیتاہوں پھر دو دو رکعتیں پڑھتا رہتا ہوں جب نماز مکمل کر لیتاہوں تو دو رکعتوں کے ساتھ ایک رکعت کو ملا کرو تر پڑھ لیتا ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی آخری نماز وتر کو بنانے کا حکم دیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال: حدثهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يبعث عليهم إذا ابتاعوا من الركبان الاطعمة من يمنعهم ان يتبايعوها حتى يؤووا إلى رحالهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَهُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَبْعَثُ عَلَيْهِمْ إِذَا ابْتَاعُوا مِنَ الرُّكْبَانِ الْأَطْعِمَةَ مَنْ يَمْنَعُهُمْ أَنْ يَتَبَايَعُوهَا حَتَّى يُؤْوُوا إِلَى رِحَالِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب لوگ سواروں سے کوئی سامان خریدتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کچھ لوگوں کو بھیجتے تھے جو انہیں اس بات سے منع کرتے تھے کہ اسی جگہ کھڑے کھڑے اسے کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دیں جب تک کہ اسے اپنے خیمے میں نہ جائیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) میں سے ہر ایک کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں یا یہ کہ وہ بیع خیار ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا الفضل بن دكين ، حدثنا مالك يعني ابن مغول ، عن ابي حنظلة ، قال: سالت ابن عمر عن صلاة السفر، فقال: ركعتين , قال: قلت: فاين قول الله تبارك وتعالى: فإن خفتم سورة البقرة آية 229، ونحن آمنون؟ قال: سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: كذاك سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِي حَنْظَلَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ صَلَاةِ السَّفَرِ، فَقَالَ: رَكْعَتَيْنِ , قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ قَوْلُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فَإِنْ خِفْتُمْ سورة البقرة آية 229، وَنَحْنُ آمِنُونَ؟ قَالَ: سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: كَذَاكَ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوحنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر کی نماز کے متعلق دریافت کیا انہوں نے فرمایا: کہ سفر میں نماز کی دو رکعتیں ہیں ہم نے کہا کہ اب تو ہر طرف امن وامان ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تمہیں خوف ہو؟ فرمایا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين من أجل أبى حنظلة .
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو احمد الزبيري محمد بن عبد الله , حدثنا ابو شعبة الطحان جار الاعمش , عن ابي الربيع ، قال: كنت مع ابن عمر في جنازة، فسمع صوت إنسان يصيح، فبعث إليه، فاسكته، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، لم اسكته؟ قال:" إنه يتاذى به الميت حتى يدخل قبره". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فقلت له: إني اصلي معك الصبح، ثم التفت، فلا ارى وجه جليسي، ثم احيانا تسفر؟ قال: كذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، واحببت ان اصليها , كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليها.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنَا أَبُو شُعْبَةَ الطَّحَّانُ جَارُ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي جَنَازَةٍ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانٍ يَصِيحُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ، فَأَسْكَتَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لِمَ أَسْكَتَّهُ؟ قَالَ:" إِنَّهُ يَتَأَذَّى بِهِ الْمَيِّتُ حَتَّى يُدْخَلَ قَبْرَهُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أُصَلِّي مَعَكَ الصُّبْحَ، ثُمَّ أَلْتَفِتُ، فَلَا أَرَى وَجْهَ جَلِيسِي، ثُمَّ أَحْيَانًا تُسْفِرُ؟ قَالَ: كَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَأَحْبَبْتُ أَنْ أُصَلِّيَهَا , كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا.
ابوالربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک جنازے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ شریک تھا، ان کے کانوں میں ایک آدمی کے چیخنے چلانے کی آواز آئی انہوں نے اس کے پاس ایک آدمی کو بھیج کر اسے خاموش کروایا میں نے ان سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن آپ نے اسے کیوں خاموش کروایا؟ انہوں نے فرمایا: کہ جب تک مردہ قبر میں داخل نہ ہو جائے اسے اس سے اذیت ہوتی ہے میں نے ان سے پھر پوچھا کہ بعض اوقات میں آپ کے ساتھ صبح کی نماز ایسے وقت میں پڑھتا ہوں کہ سلام پھیرنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا چہرہ نظر نہیں آتا اور کبھی آپ خوب روشنی کر کے نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں اسی طرح نماز پڑھوں جیسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأبي شعبة الطحان جار الأعمش، قال الدارقطني: متروك، وأبي الربيع، قال الدارقطني: مجهول .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نحوست تین چیزوں میں ہوسکتی تھی گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے مارو دوبارہ پیئے تو پھر مارو سہ بارہ پیئے تو پھر مارو اور چوتھی یا پانچویں مرتبہ فرمایا: کہ اسے قتل کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حال حميد بن يزيد أبى الخطاب .
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسلم سالمها الله، وغفار غفر الله لها، وعصية عصت الله ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَغِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَعُصَيَّةُ عَصَتْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبیلہ اسلم اللہ اسے سلامت رکھے قبیلہ غفار اللہ اس کی بخشش کرے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔