سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں وادی بطحاء میں پڑھیں، رات وہیں گزاری اور پھر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی دوسری آنکھ آنگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کو دیکھا ہے کہ وہ سواری پر نفل نماز پڑھ لیا کرتے تھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی اسی طرح کر لیتے تھے۔
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو خانہ کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: غیر اللہ کی قسم نہ کھایا کرو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانے والاشرک کرتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن سعد بن عبيدة ، قال: كنت جالسا عند عبد الله بن عمر، فجئت سعيد بن المسيب، وتركت عنده رجلا من كندة، فجاء الكندي مروعا، فقلت: ما وراءك؟ قال: جاء رجل إلى عبد الله بن عمر آنفا، فقال: احلف بالكعبة؟ فقال: احلف برب الكعبة، فإن عمر كان يحلف بابيه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تحلف بابيك، فإنه من حلف بغير الله فقد اشرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَجِئْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَتَرَكْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا مِنْ كِنْدَةَ، فَجَاءَ الْكِنْدِيُّ مُرَوَّعًا، فَقُلْتُ: مَا وَرَاءَكَ؟ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ آنِفًا، فَقَالَ: أَحْلِفُ بِالْكَعْبَةِ؟ فَقَالَ: احْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَإِنَّ عُمَرَ كَانَ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحْلِفْ بِأَبِيكَ، فَإِنَّهُ مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ".
سعد بن عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھا اور جا کر سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے پاس بیٹھ گیا اتنی دیر میں میرا کندی ساتھی آیا اس کے چہرے کا رنگ متغیر اور پیلا زرد ہو رہا تھا اس نے آتے ہی کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے ابوعبدالرحمن! اگر میں خانہ کعبہ کی قسم کھاؤں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: کہ تمہیں خانہ کعبہ کی قسم کھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر تم خانہ کعبہ کی قسم ہی کھانا چاہتے ہو تو رب کعبہ کی قسم کھاؤ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے باپ کی قسم کھایا کرتے تھے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے باپ کی قسم نہ کھاؤ کیونکہ غیر اللہ کی قسم کھانے والا شرک کرتا ہے۔
سعد بن عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ آج رات مہینے کا نصف ہو گا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ مہینہ کا نصف ہے بلکہ یوں کہو کہ پندرہ تاریخ ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کبھی مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے تیسرے مرتبہ راوی نے اس انگلی کو بند کر لیا جو پچاس کے عدد کی نشاندہی کر تی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حيان ، حدثنا ابن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6، قال:" يقوم احدهم في رشحه إلى انصاف اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، قَالَ:" يَقُومُ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت " جب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے " کی تفسیر میں فرمایا: کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت یہ دعاء فرماتے تھے کہ اے اللہ ہمیں یہاں موت نہ دیجئے گا یہاں تک کہ آپ ہمیں یہاں سے نکال کر لے جائیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر امت کے مجوسی ہوتے ہیں اور میری امت کے مجوسی قدریہ (منکر ین تقدیر) ہیں، اگر یہ بیمار ہوں تو تم ان کی عیادت کو نہ جاؤ اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شرکت نہ کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف عمر بن عبد الله مولى غفرة، وعبد الرحمن بن صالح بن محمد الأنصاري مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان عمر بن الخطاب اصاب ارضا من يهود بني حارثة، يقال لها: ثمغ، فقال: يا رسول الله، إني اصبت مالا نفيسا اريد ان اتصدق به، قال:" فجعلها صدقة، لا تباع، ولا توهب، ولا تورث، يليها ذوو الراي من آل عمر، فما عفا من ثمرتها جعل في سبيل الله تعالى، وابن السبيل، وفي الرقاب، والفقراء، ولذي القربى، والضعيف، وليس على من وليها جناح ان ياكل بالمعروف، او يؤكل، صديقا غير متمول منه مالا"، قال حماد: فزعم عمرو بن دينار , ان عبد الله بن عمر كان يهدي إلى عبد الله بن صفوان منه، قال: فتصدقت حفصة بارض لها على ذلك، وتصدق ابن عمر بارض له على ذلك، ووليتها حفصة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَصَابَ أَرْضًا مِنْ يَهُودِ بَنِي حَارِثَةَ، يُقَالُ لَهَا: ثَمْغٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ مَالًا نَفِيسًا أُرِيدُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، قَالَ:" فَجَعَلَهَا صَدَقَةً، لَا تُبَاعُ، وَلَا تُوهَبُ، وَلَا تُورَثُ، يَلِيهَا ذَوُو الرَّأْيِ مِنْ آلِ عُمَرَ، فَمَا عَفَا مِنْ ثَمَرَتِهَا جُعِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَفِي الرِّقَابِ، وَالْفُقَرَاءِ، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالضَّعِيفِ، وَلَيْسَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا جُنَاحٌ أَنْ يَأْكُلَ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُؤْكِلَ، صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مِنْهُ مَالًا"، قَالَ حَمَّادٌ: فَزَعَمَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُهْدِي إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ مِنْهُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَتْ حَفْصَةُ بِأَرْضٍ لَهَا عَلَى ذَلِكَ، وَتَصَدَّقَ ابْنُ عُمَرَ بِأَرْضٍ لَهُ عَلَى ذَلِكَ، وَوَلِيَتْهَا حَفْصَةُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خیبر میں یہود بنی حارثہ کی ایک زمین حصے میں ملی جسے ثمغ کہا جاتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ!! میرے حصے میں خیبر کی زمین کا ایک ایساٹکڑا آیا ہے کہ اس سے زیادہ عمدہ مال میرے پاس کبھی نہیں آیا، میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے فقراء قریبی رشتہ داروں، غلاموں، مجاہدین، مسافروں اور مہمانوں کے لئے وقف کر دیا جسے بیچا جاسکے گا اور نہ ہبہ کیا جاسکے گا اور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہو گی، البتہ آل عمران کے اصحاب رائے اس کے متولی ہوں گے اور فرمایا: کہ اس زمین کے متولی کے لئے خود بھلے طریقے سے اس میں سے کچھ کھانے میں یا اپنے دوست کو " جو اس سے اپنے مال میں اضافہ نہ کرنا چاہتا ہو " کھلانے میں کوئی حرج نہیں، عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں سے عبداللہ بن صفوان کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے، سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی زمین صدقہ کر دی تھی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی انہی شرائط پر اپنی زمین صدقہ کر دی تھی اور سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ اس کی نگران تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، والشطر الأخير منه أخرجه البخاري 2777.