سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کی سی ہے جن میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہ ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ: 6498، عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار- وإن كان في حديثه ضعف- قد توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا عبد الرحمن ، عن زيد بن اسلم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن بلالا لا يدري ما الليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا لَا يَدْرِي مَا اللَّيْلُ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو پتہ نہیں چلتا کہ رات کتنی بچی ہے؟ اس لئے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں تم کھاتے پیتے رہو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، وقوله "إن بلالا لايدري ما الليل" لم أجده في غير هذا الموضع.
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن عبد الله بن ابي سلمة ، اخبرنا ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تاذين ابن ام مكتوم"، قال: وكان ابن ام مكتوم رجلا اعمى لا يبصر، لا يؤذن حتى يقول الناس اذن قد اصبحت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بِلَالًا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَجُلًا أَعْمَى لَا يُبْصِرُ، لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَقُولَ النَّاسُ أَذِّنْ قَدْ أَصْبَحْتَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلال رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں اس لئے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں تم کھاتے پیتے رہو راوی کہتے ہیں کہ دراصل سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا آدمی تھے، دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک لوگ نہ کہنے لگتے کہ اذان دیجئے آپ نے تو صبح کر دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، وحجين , قالا: حدثنا عبد العزيز ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل المؤمن مثل شجرة لا تطرح ورقها"، قال: فوقع الناس في شجر البدو، ووقع في قلبي انها النخلة، فاستحييت ان اتكلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هي النخلة"، قال: فذكرت ذلك لعمر، فقال: يا بني , ما منعك ان تتكلم؟! فوالله , لان تكون قلت ذلك احب إلي من ان يكون لي كذا وكذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، وَحُجَيْنٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ شَجَرَةٍ لَا تَطْرَحُ وَرَقَهَا"، قَالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَدْوِ، وَوَقَعَ فِي قَلْبِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ النَّخْلَةُ"، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُمَرَ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ , مَا مَنَعَكَ أَنْ تَتَكَلَّمَ؟! فَوَاللَّهِ , لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَ ذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درخت ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کی طرح ہوتا ہے بتاؤ وہ کون سادرخت ہے؟ لوگوں کے ذہن میں جنگل کے مختلف درختوں کی طرف گئے میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہو سکتا ہے تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تذکر ہ کیا تو انہوں نے فرمایا: اس موقع پر تمہارا بولنا میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے ایک جھنڈابلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کا دھوکہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن نافع ، عن عبد الله , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" حرق نخل بني النضير وقطع" , وهي البويرة، فانزل الله تبارك وتعالى ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين سورة الحشر آية 5.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَّعَ" , وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے درخت کٹوا کر انہیں آگ لگا دی اور اس موقع پر اللہ نے ہی آیت نازل فرمائی " تم نے کھجور کا جو درخت بھی کاٹایا اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو وہ اللہ کے حکم سے تھا اور تاکہ اللہ فاسقوں کو رسوا کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر اخبره: ان امراة وجدت في بعض مغازي رسول الله صلى الله عليه وسلم مقتولة،" فانكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل النساء والصبيان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ: أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتُولَةً،" فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلَ النِسَاءِ وَالصِّبْيَانِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک مقتول کو دیکھا تو اس نے نکیر فرماتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے روک دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن نافع ، عن عبد الله , انه كان" إذا صلى الجمعة، انصرف فصلى سجدتين في بيته"، ثم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ كَانَ" إِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ، انْصَرَفَ فَصَلَّى سَجْدَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ"، ثُمَّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو واپس جا کر اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ," ينهى إذا كان ثلاثة نفر ان يتناجى اثنان دون الثالث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," يَنْهَى إِذَا كَانَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ أَنْ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے منع فرماتے تھے کہ تین آدمی ہوں اور تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی کرنے لگیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن نافع ، عن عبد الله ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه كان يقول:" لا تتبايعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها"، نهى البائع والمشتري، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المزابنة، ان يبيع ثمرة حائطه إن كانت نخلا بتمر كيلا، وإن كانت كرما ان يبيعه بزبيب كيلا، وإن كانت زرعا ان يبيعه بكيل معلوم، نهى عن ذلك كله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:" لَا تَتَبَايَعُوا الثَّمَرَةَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا"، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَةِ، أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَةَ حَائِطِهِ إِنْ كَانَتْ نَخْلًا بِتَمْرٍ كَيْلًا، وَإِنْ كَانَتْ كَرْمًا أَنْ يَبِيعَهُ بِزَبِيبٍ كَيْلًا، وَإِنْ كَانَتْ زَرْعًا أَنْ يَبِيعَهُ بِكَيْلٍ مَعْلُومٍ، نَهَى عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب تک پھل پک نہ جائے اس کی خریدو فروخت مت کیا کرو یہ ممانعت بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں کو فرمائی ہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے بھی فرمایا: ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کا پھل " اگر وہ کھجور ہو تو " کٹی ہوئی کھجور کے بدلے ناپ کر، انگور ہو تو کشمش کے بدلے ناپ کر، کھیتی ہو تو معین ناپ کر بیچے، ان تمام چیزوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ،قوله «لاتتبايعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها» أخرجع مسلم: 1535، وقوله نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المزابنة.... أخرجه البخاري : 2205، ومسلم: 1542.