سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " قزع " سے منع فرمایا: ہے (قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوالیے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں جیسا کہ آج کل فیشن ہے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف ، مبارك بن فضالة مدلس، ثم هو منقطع، فإن مباركا لم يدرك عبد الله بن دينار.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " قزع " سے منع فرمایا: ہے (قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوالیے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں جیسا کہ آج کل فیشن ہے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، المبارك بن فضالة مدلس وقد عنعن.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ چہرے پر نشان پڑنے کو ناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا: ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گندم کی بھی شراب ہوتی ہے، کھجور، جو کشمش اور شہد کی بھی شراب ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة.
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن إسحاق ، حدثنا ابن المبارك ، عن عمر بن محمد بن زيد ، حدثني ابي ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا صار اهل الجنة في الجنة، واهل النار في النار، جيء بالموت حتى يوقف بين الجنة والنار، ثم يذبح، ثم ينادي مناد يا اهل الجنة، خلود لا موت، يا اهل النار، خلود لا موت، فازداد اهل الجنة فرحا إلى فرحهم، وازداد اهل النار حزنا إلى حزنهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَهْلُ النَّارِ فِي النَّارِ، جِيءَ بِالْمَوْتِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ يُذْبَحُ، ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، خُلُودٌ لَا مَوْتَ، يَا أَهْلَ النَّارِ، خُلُودٌ لَا مَوْتَ، فَازْدَادَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلَى فَرَحِهِمْ، وَازْدَادَ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلَى حُزْنِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل جنت، جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لا کر جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر ایک منادی پکار کر کہے گا اے جنت! تم ہمیشہ جنت میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی اور اے جہنم! تم ہمیشہ جہنم میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی، یہ اعلان سن کر اہل جنت کی خوشی اور مسرت دو چند ہو جائے گی اور اہل جہنم کے غموں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا فليح ، عن سعيد بن الحارث ، انه سمع عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن النذر لا يقدم شيئا ولا يؤخره، وإنما يستخرج بالنذر من البخيل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ النَّذْرَ لَا يُقَدِّمُ شَيْئًا وَلَا يُؤَخِّرُهُ، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِالنَّذْرِ مِنَ الْبَخِيلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منت ماننا کسی چیز کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا البتہ منت ماننے سے کنجوس آدمی کے پاس سے کچھ نکل آتا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھے یا اپنی چال میں متکبرانہ چال کو جگہ دے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سورج اور چاند کو کسی کی موت زندگی سے گہن نہیں لگتا یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اس لئے جب تم انہیں گہن لگتے ہوئے دیکھو تو نماز کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا هارون ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة بن زيد ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو على رجال من المشركين يسميهم باسمائهم، حتى انزل الله ليس لك من الامر شيء او يتوب عليهم او يعذبهم فإنهم ظالمون سورة آل عمران آية 128، فترك ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عَلَى رِجَالٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128، فَتَرَكَ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے چند آدمیوں پر نام لے بددعاء فرماتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی طرف متوجہ ہو جائے یا انہیں سزا دے کہ یہ ظالم ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بددعاء دینا چھوڑ دیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑاجھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے نسب کی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے یا وہ خواب بیان کرے جو اس نے دیکھا ہی نہ ہو یا وہ جو زمین کے بیج بدل دے۔