قال عبد الله بن احمد , سمعت ابي , يقول: قد سمع مؤمل، من عمر بن محمد بن زيد يعني احاديث، وسمع ايضا من ابن جريج.قَالَ عَبْد اللَّهِ بنْ أَحْمَّد , سَمِعْت أَبِي , يَقُولُ: قَدْ سَمِعَ مُؤَمَّلٌ، مِنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ يَعْنِي أَحَادِيثَ، وَسَمِعَ أَيْضًا مِنْ ابْنِ جُرَيْجٍ.
عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مؤمل نے عمر بن محمد بن زید سے بھی حدیث کی سماعت کی ہے اور ابن جریج سے بھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، سمعت ابن عمر , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجلكم في اجل من كان قبلكم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلی امتوں کے مقابلے میں تمہاری مدت اتنی ہی ہے جتنی عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہوتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل - وإن كان سيئ الحفظ - قد توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6، في يوم كان مقداره خمسين الف سنة سورة المعارج آية 4 في الرشح إلى انصاف آذانهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ سورة المعارج آية 4 فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ”جب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“ اور اس آیت ”وہ دن جس کی مقدارپچاس ہزار سال کے برابر ہو گی“ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل - وإن كان سيئ الحفظ - قد توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، حدثنا عطاء بن السائب ، قال: قال لي محارب بن دثار : ما سمعت سعيد بن جبير يذكر , عن ابن عباس في الكوثر؟ فقلت: سمعته يقول: قال ابن عباس: هذا الخير الكثير، فقال محارب: سبحان الله! ما اقل ما يسقط لابن عباس قول، سمعت ابن عمر , يقول: لما انزلت إنا اعطيناك الكوثر سورة الكوثر آية 1، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو نهر في الجنة، حافتاه من ذهب، يجري على جنادل الدر والياقوت، شرابه احلى من العسل، واشد بياضا من اللبن، وابرد من الثلج، واطيب من ريح المسك"، قال: صدق ابن عباس، هذا والله الخير الكثير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، قَالَ: قَالَ لِي مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ : مَا سَمِعْتَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَذْكُرُ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْكَوْثَرِ؟ فَقُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذَا الْخَيْرُ الْكَثِيرُ، فَقَالَ مُحَارِبٌ: سُبْحَانَ اللَّهِ! مَا أَقَلَّ مَا يَسْقُطُ لِابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلٌ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ , يَقُولُ: لَمَّا أُنْزِلَتْ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سورة الكوثر آية 1، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ نَهَرٌ فِي الْجَنَّةِ، حَافَتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، يَجْرِي عَلَى جَنَادِلِ الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، شَرَابُهُ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، وَأَطْيَبُ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ"، قَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ، هَذَا وَاللَّهِ الْخَيْرُ الْكَثِيرُ.
عطاء بن سائب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے محارب بن دثار نے کہا کہ آپ نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے کوثر کے متعلق کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے مراد خیر کثیر ہے، محارب نے کہا: سبحان اللہ! سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اتنا کم وزن نہیں ہو سکتا، میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب سورت کوثر نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جس کا پانی موتیوں اور یاقوت کی کنکریوں پر بہتا ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ شریں، دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے“، محارب نے یہ سن کر کہا کہ پھر تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صحیح فرمایا: کیونکہ واللہ یہ خیر کثیر ہی تو ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنے بھائی کو اے کافر! کہتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک تو کافر ہو کر لوٹتا ہی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل بن إسماعيل - وإن كان سيئ الحفظ - تابعه يحيى بن سعيد فيما سلف برقم:4687، ووكيع فيما سلف برقم:5259.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مٹکے کی نبیذ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ آپ کو ابو عبدالرحمن پر تعجب نہیں ہوتا ان کا خیال ہے کہ مٹکے کی نبیذ کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہوں نے سچ کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے میں نے پوچھا ”مٹکے“ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جو پکی مٹی سے بنائی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوصال"، فقال: اولست تواصل؟ قال:" إني اطعم واسقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ"، فَقَالَ: أَوَلَسْتَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ:" إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان کے مہینے میں) ایک ہی سحری سے مسلسل کئی روزے رکھنے سے لوگوں کو روکا، تو وہ کہنے لگے کہ کیا آپ اس طرح نہیں کرتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو اللہ کی طرف سے کھلا پلا دیا جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق ، سمعت مالكا يحدث، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، سَمِعْتُ مَالِكًا يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانی میں خیر اور بھلائی رکھ دی گئی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بعث سرية قبل نجد، فيها عبد الله بن عمر، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا، ونفلوا بعيرا بعيرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَعَثَ سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ، فِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک سریہ روانہ فرمایا جن میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے، ان کا حصہ بارہ بارہ اونٹ بنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ایک اونٹ بطور انعام کے بھی عطاء فرمایا۔