(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد العزيز بن مسلم ، حدثنا عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، قال: اتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم خاتما من ذهب، فاتخذ الناس خواتمهم من ذهب، فقام يوما، فقال:" إني كنت البس هذا الخاتم"، ثم نبذه، فنبذ الناس خواتيمهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِمَهُمْ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَامَ يَوْمًا، فَقَالَ:" إِنِّي كُنْتُ أَلْبَسُ هَذَا الْخَاتَمَ"، ثُمَّ نَبَذَهُ، فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلال رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں، اس لئے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں تم کھاتے پیتے رہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: عبد الله بن دينار اخبرني، قال: سمعت ابن عمر , يقول:" وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة: ذا الحليفة، ولاهل نجد: قرنا، ولاهل الشام: الجحفة، وزعموا انه وقت لاهل اليمن: يلملم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ , يَقُولُ:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ: ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ: قَرْنًا، وَلِأَهْلِ الشَّامِ: الْجُحْفَةَ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْيَمَنِ: يَلَمْلَمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن کو میقات فرمایا اور لوگوں کا کہنا ہے اہل یمن کے لئے یلملم کو مقات قرار دیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر , ان رجلا من قريش , قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إني اشتري البيع فاخدع، فقال:" إذا كان ذاك فقل: لا خلابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ , قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أَشْتَرِي الْبَيْعَ فَأُخْدَعُ، فَقَالَ:" إِذَا كَانَ ذَاكَ فَقُلْ: لَا خِلَابَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قریش کا ایک آدمی تھا جسے بیع میں لوگ دھوکہ دے دیتے تھے، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم یوں کہہ لیا کرو کہ اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني عاصم بن المنذر ، قال: كنا في بستان لنا , او لعبيد الله بن عبد الله بن عمر , نرمي، فحضرت الصلاة، فقام عبيد الله إلى مقرى البستان فيه جلد بعير، فاخذ يتوضا فيه، فقلت: اتتوضا فيه وفيه هذا الجلد؟ فقال: حدثني ابي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كان الماء قلتين او ثلاثا، فإنه لا ينجس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ: كُنَّا فِي بُسْتَانٍ لَنَا , أَوْ لِعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , نَرْمِي، فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَقَامَ عُبَيْدُ اللَّهِ إِلَى مَقْرَى الْبُسْتَانِ فِيهِ جِلْدُ بَعِيرٍ، فَأَخَذَ يَتَوَضَّأُ فِيهِ، فَقُلْتُ: أَتَتَوَضَّأُ فِيهِ وَفِيهِ هَذَا الْجِلْدُ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَإِنَّهُ لَا يَنْجُسُ".
عاصم بن منذر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اپنے یا عبیداللہ بن عبداللہ کے باغ میں تیراندازی کر رہے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، عبیداللہ کھڑے ہو کر باغ کے تالاب پر چلے گئے، وہاں اونٹ کی کھال پانی میں پڑی ہوئی تھی، وہ اس پانی سے وضو کر نے لگے میں نے ان سے کہا کہ آپ اس پانی سے وضو کر رہے ہیں جبکہ اس میں یہ کھال بھی پڑی ہوئی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے والد صاحب نے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو تین مٹکے ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد جيد دون قوله: أو ثلاثا.
رقم الحديث: 5698 (حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن يحيى بن يعمر , قلت: لابن عمر , إن عندنا رجالا يزعمون ان الامر بايديهم، فإن شاءوا عملوا، وإن شاءوا لم يعملوا! فقال: اخبرهم اني منهم بريء، وانهم مني برآء، ثم قال: جاء جبريل صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا محمد , ما الإسلام؟ فقال: تعبد الله لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت، قال: فإذا فعلت ذلك، فانا مسلم؟ قال: نعم، قال: صدقت، قال: فما الإحسان؟ قال: تخشى الله تعالى كانك تراه، فإن لا تك تراه، فإنه يراك، قال: فإذا فعلت ذلك، فانا محسن، قال: نعم، قال: صدقت، قال: فما الإيمان؟ قال: تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، والبعث من بعد الموت والجنة، والنار، والقدر كله، قال: فإذا فعلت ذلك، فانا مؤمن؟ قال: نعم، قال: صدقت".رقم الحديث: 5698 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ , قُلْتُ: لِابْنِ عُمَرَ , إِنَّ عِنْدَنَا رِجَالًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الْأَمْرَ بِأَيْدِيهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا عَمِلُوا، وَإِنْ شَاءُوا لَمْ يَعْمَلُوا! فَقَالَ: أَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَآءُ، ثُمَّ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا مُحَمَّدُ , مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ: تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: تَخْشَى اللَّهَ تَعَالَى كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَا تَكُ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَنَا مُحْسِنٌ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ وَالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: صَدَقْتَ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ معاملات ان کے اختیار میں ہیں، چاہیں تو عمل کر لیں اور چاہیں تو نہ کر یں، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، یہ بات کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ ایک مرتبہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے محمد! ”اسلام“ کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ نیز یہ کہ آپ نماز قائم کر یں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے کہا کہ جب میں یہ کام کر لوں تو میں ”مسلمان“کہلاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، پھر اس نے پوچھا کہ ”احسان“ کی تعریف کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ سے اس طرح ڈرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ تصور نہ کر سکو تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے“، اس نے کہا: کیا ایسا کرنے کے بعد میں ”محسن“ بن جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ اس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا: پھر اس نے پوچھا کہ ”ایمان“ کی تعریف کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، موت کے بعد دوبارہ زندگی، جنت و جہنم اور ہر تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے کہا: کیا ایسا کر نے کے بعد میں مومن کہلاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“اس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف علي بن زيد، وقد توبع.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ بھی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں آتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قبیلہ اسلم، اللہ اسے سلامت رکھے، قبیلہ غفار اللہ اس کی بخشش کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا صخر يعني ابن جويرية ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بينما انا على بئر انزع منها، إذ جاء ابو بكر , وعمر، فاخذ ابو بكر الدلو، فنزع ذنوبا او ذنوبين، وفي نزعه ضعف، والله يغفر له، ثم اخذ عمر بن الخطاب من ابي بكر، فاستحالت في يده غربا، فلم ار عبقريا من الناس يفري فريه، حتى ضرب الناس بعطن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ يَعْنِي ابْنَ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَمَا أَنَا عَلَى بِئْرٍ أَنْزِعُ مِنْهَا، إِذْ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ الدَّلْوَ، فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ، وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ أَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، فَاسْتَحَالَتْ فِي يَدِهِ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ، حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ".