(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: رمقت النبي صلى الله عليه وسلم اربعا وعشرين، او خمسا وعشرين مرة:" يقرا في الركعتين قبل الفجر , والركعتين بعد المغرب ب قل يا ايها الكافرون، و قل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً:" يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ , وَالرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ب قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے 24 یا 25 دن تک یہ اندازہ لگایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے کی اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں (سنتوں) میں سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سريج ، حدثنا ابو عوانة ، عن الاعمش ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من سالكم بالله فاعطوه، ومن استعاذكم بالله فاعيذوه، ومن اتى إليكم معروفا فكافئوه، فإن لم تجدوا ما تكافئوه، فادعوا له حتى تعلموا انكم قد كافاتموه، ومن استجاركم فاجيروه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ اسْتَعَاذَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ، وَمَنْ اسْتَجَارَكُمْ فَأَجِيرُوهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دے دو، جو شخص اللہ کے نام پر سوال کرے اسے عطاء کر دو، جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کا بدلہ دو، اگربدلہ میں دینے کے لئے کچھ نہ ملے تو اس کے لئے اتنی دعائیں کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ اتار دیا ہے اور جو شخص تمہاری پناہ میں آئے، اسے پناہ دے دو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، حدثنا ليث بن ابي سليم ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا صلى احدكم، فلا يتنخمن تجاه القبلة، فإن تجاهه الرحمن، ولا عن يمينه، ولكن عن شماله، او تحت قدمه اليسرى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ، فَإِنَّ تُجَاهَهُ الرَّحْمَنُ، وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ شِمَالِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے اس لئے تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کے سامنے ناک صاف نہ کرے اور نہ ہی دائیں جانب کرے، البتہ بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے کر سکتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، لكن تابعه على معنى حديثه ابن أبي داود فيما سلف برقم: 4908.
حاتم بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے قریش کے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک عورت کو میدان منٰی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے ہوئے دیکھا، جس نے ریشمی قمیض پہن رکھی تھی، اس نے آکر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ریشم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مردوں کے لئے) اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة التابعي راويه عن ابن عمر.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کچی اینٹوں پر خانہ کعبہ کے رخ قضاء حاجت کرتے ہوئے دیکھا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف أيوب بن عتبة.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن غيلان ، حدثنا رشدين ، حدثني عمرو بن الحارث ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله حدثه، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , كان يعطي عمر العطاء، فيقول له عمر: اعطه يا رسول الله افقر إليه مني، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذه فتموله، او تصدق به، وما جاءك من هذا المال وانت غير مشرف , ولا سائل فخذه، ومالا فلا تتبعه نفسك"، قال سالم: فمن اجل ذلك , كان ابن عمر لا يسال احدا شيئا، ولا يرد شيئا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يُعْطِي عُمَرَ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ: أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ، أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ , وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَالَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ"، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ , كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا، وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز عطاء فرماتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو، اپنے مال میں اضافہ کرو اس کے بعد صدقہ کر دو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو“، سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی کسی سے کچھ مانگتے نہ تھے، البتہ اگر کوئی دے دیتا تو اسے رد نہ فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1045، وهذا إسناد ضعيف لضعف رشيدين، وهو متابع.
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا الحارث بن عبيد ، حدثنا بشر بن حرب ، قال: سالت عبد الله بن عمر ، قال: قلت: ما تقول في الصوم في السفر؟ قال: تاخذ إن حدثتك؟! , قلت: نعم، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا خرج من هذه المدينة قصر الصلاة ولم يصم حتى يرجع إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثِ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: قُلْتُ: مَا تَقُولُ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: تَأْخُذُ إِنْ حَدَّثْتُكَ؟! , قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا خَرَجَ مِنْ هَذِهِ الْمَدِينَةِ قَصَرَ الصَّلَاةَ وَلَمْ يَصُمْ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْهَا".
بشر بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ دوران سفر روزہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں تم سے حدیث بیان کروں تو تم اس پر عمل کرو گے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تھے تو نماز میں قصر فرماتے اور واپس آنے تک روزہ نہ رکھتے تھے (بعد میں قضاء کر لیتے تھے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه الحارث بن عبيد أبو قدامة الإيادي وبشر بن حرب، وفيهما ضعف.