(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا همام ، عن عطاء بن السائب ، عن عبد الله بن عبيد بن عمير ، عن ابيه ، قال: قلت لابن عمر : اراك تزاحم على هذين الركنين؟ قال: إن افعل، فقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن مسحهما يحطان الخطايا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعته يقول:" من طاف بهذا البيت اسبوعا يحصيه، كتب له بكل خطوة حسنة، وكفر عنه سيئة، ورفعت له درجة وكان عدل عتق رقبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : أَرَاكَ تُزَاحِمُ عَلَى هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ؟ قَالَ: إِنْ أَفْعَلْ، فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ مَسْحَهُمَا يَحُطَّانِ الْخَطَايَا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا يُحْصِيهِ، كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةٌ، وَكُفِّرَ عَنْهُ سَيِّئَةٌ، وَرُفِعَتْ لَهُ دَرَجَةٌ وَكَانَ عَدْلَ عِتْقِ رَقَبَةٍ".
عبید بن عمیر نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں آپ کو ان دو رکنوں حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرنے کے لئے رش میں گھستے ہوئے دیکھتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر میں ایسا کرتا ہوں تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں کا استلام انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ جو شخص گن کر طواف کے سات چکر لگائے (اور اس کے بعد دوگانہ طواف پڑھ لے) تو ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جائے گی، ایک گناہ مٹا دیا جائے گا، ایک درجہ بلند کر دیا جائے گا اور یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب تم پر ایسے امراء آئیں گے جو تمہیں ایسی چیزوں کا حکم دیں گے جو خود نہیں کرتے ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے گا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ آ سکے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبراهيم قعيس، ضعفه أبو حاتم.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر شاذان ، اخبرنا ابو بكر بن عياش ، عن ليث ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سالكم بالله فاعطوه، ومن دعاكم فاجيبوه، ومن اهدى لكم فكافئوه، فإن لم تجدوا ما تكافئوه، فادعوا له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ شَاذَانُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ أَهْدَى لَكُمْ فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ، فَادْعُوا لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اللہ کے نام پر سوال کرے اسے عطاء کر دو، جو شخص تمہیں دعوت دے اسے قبول کر لو، جو تمہیں ہدیہ دے اس کا بدلہ دو، اگر بدلہ میں دینے کے لئے کچھ نہ ملے تو اس کے لئے اتنی دعائیں کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ اتار دیا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا حنظلة ، سمعت سالم بن عبد الله ، يقول: سمعت ابن عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لان يكون جوف المرء مملوءا قيحا، خير له من ان يكون مملوءا شعرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ ، سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَأَنْ يَكُونَ جَوْفُ الْمَرْءِ مَمْلُوءًا قَيْحًا، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَكُونَ مَمْلُوءًا شِعْرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے تم میں سے کسی کا پیٹ قے سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، سمعت يونس ، عن الزهري ، عن سالم ، ان ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا انفسهم، إلا ان تكونوا باكين، ان يصيبكم مثل ما اصابهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان معذب اقوام پر روتے ہوئے داخل ہوا کرو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بھی وہ عذاب نہ آ پکڑے جو ان پر آیا تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي بشر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم" خاتم من ذهب، كان يدخل فصه في باطن كفه، فطرحه ذات يوم، فطرح اصحابه خواتيمهم، ثم اتخذ خاتما من فضة، وكان يختم به ولا يلبسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، كَانَ يُدْخِلُ فَصَّهُ فِي بَاطِنِ كَفِّهِ، فَطَرَحَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَطَرَحَ أَصْحَابُهُ خَوَاتِيمَهُمْ، ثُمَّ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ، وَكَانَ يَخْتِمُ بِهِ وَلَا يَلْبَسُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اس کا نگینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیلی کی طرف کر لیتے تھے، لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار پھینکیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوا لی، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہر لگاتے تھے، لیکن اسے پہنتے نہیں تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں مجھے اسامہ سب سے زیادہ محبوب ہے، سوائے فاطمہ کے، لیکن کوئی اور نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناد صحيح، خ: 4468، وليس فيه: ما حاشا فاطمة ولا غيرها.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، عن رقبة ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن عبد الرحمن بن سميرة ، قال: كنت امشي مع عبد الله بن عمر ، فإذا نحن براس منصوب على خشبة، قال: فقال: شقي قاتل هذا، قال: قلت: انت تقول هذا يا ابا عبد الرحمن؟ قال: فشد يده من يدي، وقال: ابو عبد الرحمن! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا مشى الرجل من امتي إلى الرجل ليقتله، فليقل هكذا، فالمقتول في الجنة، والقاتل في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ رَقَبَةَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُمَيْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، فَإِذَا نَحْنُ بِرَأْسٍ مَنْصُوبٍ عَلَى خَشَبَةٍ، قَالَ: فَقَالَ: شَقِيَ قَاتِلُ هَذَا، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ تَقُولُ هَذَا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: فَشَدَّ يَدَهُ مِنْ يَدِي، وَقَالَ: أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ! سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا مَشَى الرَّجُلُ مِنْ أُمَّتِي إِلَى الرَّجُلِ لِيَقْتُلَهُ، فَلْيَقُلْ هَكَذَا، فَالْمَقْتُولُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْقَاتِلُ فِي النَّارِ".
عبدالرحمن بن سمیرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ چلا جارہا تھا، راستے میں ان کا گزر ایک کٹے ہوئے سر پر ہوا، جو سولی پر لٹکا ہوا تھا، اسے دیکھ کروہ فرمانے لگے کہ اسے قتل کرنے والا شقی ہے، میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوعبدالرحمن! یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا ہاتھ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرا جو امتی کسی کو قتل کرنے کے لئے نکلے اور اسی طرح کسی کو قتل کر دے (جیسے اس مقتول کا سر لٹکا ہوا ہے) تو مقتول جنت میں جائے گا اور قاتل جہنم میں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبد الرحمن بن سميرة مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا صخر ، عن نافع ، ان ابن عمر جمع بنيه حين انتزى اهل المدينة مع ابن الزبير، وخلعوا يزيد بن معاوية، فقال: إنا قد بايعنا هذا الرجل ببيع الله ورسوله، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الغادر ينصب له لواء يوم القيامة، فيقال: هذه غدرة فلان، وإن من اعظم الغدر، إلا ان يكون الإشراك بالله تعالى، ان يبايع الرجل رجلا على بيع الله ورسوله، ثم ينكث بيعته"، فلا يخلعن احد منكم يزيد، ولا يسرفن احد منكم في هذا الامر، فيكون صيلما فيما بيني وبينكم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَمَعَ بَنِيهِ حِينَ انْتَزَى أَهْلُ الْمَدِينَةِ مَعَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَخَلَعُوا يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ بِبَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْغَادِرُ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ، وَإِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْغَدْرِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ تَعَالَى، أَنْ يُبَايِعَ الرَّجُلُ رَجُلًا عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يَنْكُثَ بَيْعَتَهُ"، فَلَا يَخْلَعَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَزِيدَ، وَلَا يُسْرِفَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِي هَذَا الْأَمْرِ، فَيَكُونَ صَيْلَمًا فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب اہل مدینہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمع ہو گئے اور انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے سارے بیٹوں اور اہل خانہ کو جمع کیا، اور فرمایا: ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اس شخص کی بیعت کی تھی اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر دھوکے باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی دھوکہ بازی ہے، اور شرک کے بعد سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کسی کی بیعت کرے اور پھر اسے توڑ دے، اس لئے تم میں سے کوئی بھی یزید کی بیعت نہ توڑے اور نہ ہی امر خلافت میں جھانک کر دیکھے، ورنہ میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں رہے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، حدثنا خالد الحذاء ، ان ابا المليح قال لابي قلابة: دخلت انا وابوك على ابن عمر فحدثنا، انه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فالقى له وسادة من ادم حشوها ليف، ولم اقعد عليها، بقيت بيني وبينه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، أَنَّ أَبَا الْمَلِيحِ قَالَ لِأَبِي قِلَابَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُوكَ عَلَى ابْنِ عُمَرَ فَحَدَّثَنَا، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَلْقَى لَهُ وَسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَلَمْ أَقْعُدْ عَلَيْهَا، بَقِيَتْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ".
خالد الخداء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوالمیلح رحمہ اللہ نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے کہا کہ میں اور آپ کے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، انہوں نے ہمیں یہ حدیث سنائی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چمڑے کا تکیہ پیش کیا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، لیکن میں اس کے ساتھ ٹیک لگا کر نہیں بیٹھا اور وہ تکیہ میرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہی پڑا رہا۔