(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، حدثنا موسى بن عقبة ، اخبرني سالم بن عبد الله ، انه سمع ابن عمر يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه" لقي زيد بن عمرو بن نفيل باسفل بلدح، وذلك قبل ان ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي، فقدم إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم سفرة فيها لحم، فابى ان ياكل منه، وقال: إني لا آكل مما تذبحون على انصابكم، ولا آكل مما لم يذكر اسم الله عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ، وَقَالَ: إِنِّي لَا آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلَا آكُلُ مِمَّا لَمْ يُذْكَرْ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے نشیبی علاقے میں نزول وحی کا زمانہ شروع ہونے سے قبل، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زید بن عمرو بن نفیل سے ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا اور گوشت لاکر سامنے رکھا، انہوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ میں ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا، جنہیں تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربان کرتے ہو اور میں وہ چیزیں بھی نہیں کھاتا، جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا حسن يعني ابن صالح ، عن فراس ، عن عطية العوفي ، عن ابن عمر ، قال:" صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحضر والسفر، فصلى الظهر في الحضر اربعا، وبعدها ركعتين، وصلى العصر اربعا، وليس بعدها شيء، وصلى المغرب ثلاثا، وبعدها ركعتين، وصلى العشاء اربعا، وصلى في السفر الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين، والعصر ركعتين، وليس بعدها شيء، والمغرب ثلاثا، وبعدها ركعتين، والعشاء ركعتين، وبعدها ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا حَسَنٌ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّى الْعَصْرَ أَرْبَعًا، وَلَيْسَ بَعْدَهَا شَيْءٌ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ أَرْبَعًا، وَصَلَّى فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَلَيْسَ بَعْدَهَا شَيْءٌ، وَالْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر و حضر میں نماز پڑھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں ظہر کی چار رکعتیں اور اس کم بعد دو سنتیں پڑھتے تھے، عصر کی چار رکعتیں اور اس کے بعد کچھ نہیں، مغرب کی تین رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور عشاء کی چار رکعتیں پڑھتے تھے جبکہ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں، عصر کی دو رکعتیں اور اس کے بعد کچھ نہیں، مغرب کی تین اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کی دو اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عطية ابن سعد العوفي .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا ایک خادم ہے جو میرے ساتھ برا اور زیادتی کرتا ہے، کیا میں اسے مار سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے روزانہ ستر مرتبہ درگزر کیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا ابن عمر يعني عبد الجبار الايلي ، حدثنا يزيد بن ابي سمية ، سمعت ابن عمر ، يقول: سالت ام سليم وهي ام انس بن مالك النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ترى المراة في المنام ما يرى الرجل، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا رات المراة ذلك وانزلت، فلتغتسل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُمَرَ يَعْنِي عَبْدَ الْجَبَّارِ الْأَيْلِيَّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُمَيَّةَ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَأَلَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ وَهِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَرَى الْمَرْأَةُ فِي الْمَنَامِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَتْ الْمَرْأَةُ ذَلِكَ وَأَنْزَلَتْ، فَلْتَغْتَسِلْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے (جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر عورت بھی خواب میں اس کیفیت سے دوچار ہو جس سے مرد ہوتا ہے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت خواب میں پانی دیکھے اور انزال بھی ہو جائے تو وہ بھی غسل کرے گی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالجبار بن عمر الأيلي .
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، اخبرنا شريك ، عن مطرف ، عن زيد العمي ، عن ابي الصديق الناجي ، عن ابن عمر ، ان نساء النبي صلى الله عليه وسلم سالنه عن الذيل، فقال:" اجعلنه شبرا"، فقلن: إن شبرا لا يستر من عورة، فقال:" اجعلنه ذراعا"، فكانت إحداهن إذا ارادت ان تتخذ درعا ارخت ذراعا، فجعلته ذيلا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ نِسَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْنَهُ عَنِ الذَّيْلِ، فَقَالَ:" اجْعَلْنَهُ شِبْرًا"، فَقُلْنَ: إِنَّ شِبْرًا لَا يَسْتُرُ مِنْ عَوْرَةٍ، فَقَالَ:" اجْعَلْنَهُ ذِرَاعًا"، فَكَانَتْ إِحْدَاهُنَّ إِذَا أَرَادَتْ أَنْ تَتَّخِذَ دِرْعًا أَرْخَتْ ذِرَاعًا، فَجَعَلَتْهُ ذَيْلًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دامن لٹکانے کے متعلق پوچھا، تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بالشت کے برابر دامن کی اجازت عطاء فرمائی، انہوں نے کہا کہ ایک بالشت سے ستر پوشی نہیں ہوتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک گز کر لو، چنانچہ جب ان میں سے کوئی خاتون قمیض بنانا چاہتی تو اسے ایک گز لٹکا کر اس کا دامن بنا لیتی تھیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك .
سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شاعر نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی موجودگی میں ان کے صاحبزادے بلال کی تعریف میں یہ شعر کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بلال ہر بلال سے بہتر ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: تم غلط کہتے ہو یہ شان صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال کی تھی۔
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہل شام میں سے ایک شخص حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا دوست تھا جو ان سے خط و کتابت بھی کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے خط لکھا کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تم تقدیر کے بارے میں اپنی زبان کھولتے ہو، آئندہ مجھے خط نہ لکھنا، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو تقدیر کی تکذیب کرتے ہوں گے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب خواتین تم سے مسجدوں میں جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مساجد کے حصے سے مت روکا کرو“، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیٹا بلال کہنے لگا کہ ہم تو انہیں روکیں گے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟