سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرنا گناہوں کو بالکل مٹا دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، سفيان الثوري سمع من عطاء ابن السائب قبل الاختلاط .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (حجراسود کے علاوہ) صرف رکن یمانی کا استلام کرتے تھے، باقی دو کونوں کا استلام نہیں کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يقم احدكم اخاه فيجلس في مجلسه"، قال سالم: فكان الرجل يقوم لابن عمر من مجلسه، فما يجلس في مجلسه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَيَجْلِسَ فِي مَجْلِسِهِ"، قَالَ سَالِمٌ: فَكَانَ الرَّجُلُ يَقُومُ لِابْنِ عُمَرَ مِنْ مَجْلِسِهِ، فَمَا يَجْلِسُ فِي مَجْلِسِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے“، سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اگر کوئی آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لئے اپنی جگہ خالی کرتا تھا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا الفرج ، حدثنا محمد بن عامر ، عن محمد بن عبد الله ، عن جعفر بن عمرو ، عن انس بن مالك ، قال:" إذا بلغ الرجل المسلم اربعين سنة، آمنه الله من انواع البلايا: من الجنون، والبرص، والجذام، وإذا بلغ الخمسين، لين الله عز وجل عليه حسابه، وإذا بلغ الستين رزقه الله إنابة يحبه عليها، وإذا بلغ السبعين احبه الله واحبه اهل السماء، وإذا بلغ الثمانين، تقبل الله منه حسناته، ومحا عنه سيئاته، وإذا بلغ التسعين، غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، وسمي اسير الله في الارض، وشفع في اهله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" إِذَا بَلَغَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، آمَنَهُ اللَّهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْبَلَايَا: مِنَ الْجُنُونِ، وَالْبَرَصِ، وَالْجُذَامِ، وَإِذَا بَلَغَ الْخَمْسِينَ، لَيَّنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ حِسَابَهُ، وَإِذَا بَلَغَ السِّتِّينَ رَزَقَهُ اللَّهُ إِنَابَةً يُحِبُّهُ عَلَيْهَا، وَإِذَا بَلَغَ السَّبْعِينَ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَأَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِينَ، تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنْهُ حَسَنَاتِهِ، وَمَحَا عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ، وَإِذَا بَلَغَ التِّسْعِينَ، غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَسُمِّيَ أَسِيرَ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، وَشُفِّعَ فِي أَهْلِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ جب کوئی مسلمان چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مختلف قسم کی بیماریوں مثلاً جنون، برص اور جذام سے محفوظ کر دیتا ہے، جب پچاس سال کی عمر کا ہو جائے تو اللہ اس کے حساب میں نرمی کر دیتا ہے جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ اسے اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق دے دیتا ہے، اور اس کی بناء پر اس سے محبت کرنے لگتا ہے جب ستر سال کی عمر ہو جائے تو اللہ اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جب اسی سال کی عمر ہو جائے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اسے «اسير الله فى الارض» کا خطاب دیا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔
حكم دارالسلام: اسناده ضعيف جدا لضعف فرج، ومحمد بن عامر لم نعرف من هو .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لضعف فرج، ولانقطاعه، فإن محمد بن عبد الله بن عمرو بن عثمان لم يدرك ابن عمر، ثم إننا لم نعرف محمد بن عبدالله العامري من هو؟ .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: آشتري الذهب بالفضة، او الفضة بالذهب؟ قال:" إذا اشتريت واحدا منهما بالآخر، فلا يفارقك صاحبك وبينك وبينه لبس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آشْتَرِي الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، أَوْ الْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ؟ قَالَ:" إِذَا اشْتَرَيْتَ وَاحِدًا مِنْهُمَا بِالْآخَرِ، فَلَا يُفَارِقْكَ صَاحِبُكَ وَبَيْنَكَ وَبَيْنَهُ لَبْسٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے کے بدلے وصول کرو تو اس وقت تک اپنے ساتھی سے جدا نہ ہو جب تک تمہارے اور اس کے درمیان بیع کا کوئی معاملہ باقی ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن موسى بن عقبة ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن عبد الله بن عمر ، عن رؤيا رسول الله صلى الله عليه وسلم في ابي بكر، وعمر، قال:" رايت الناس اجتمعوا، فقام ابو بكر، فنزع ذنوبا او ذنوبين، وفي نزعه ضعف، والله يغفر له، ثم قام ابن الخطاب، فاستحالت غربا، فما رايت عبقريا من الناس يفري فريه، حتى ضرب الناس بعطن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رُؤْيَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّاسَ اجْتَمَعُوا، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ، وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ قَامَ ابْنُ الْخَطَّابِ، فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَمَا رَأَيْتُ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ، حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خواب میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے لیکن اس میں کچھ کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کی بخشش فرمائے پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ڈول کھینچے اور وہ ان کے ہاتھ میں آ کر بڑا ڈول بن گیا، میں نے کسی عبقری انسان کو ان کی طرح ڈول بھرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ انہوں نے لوگوں کو سیراب کر دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن موسى بن عقبة ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين امر اسامة، بلغه ان الناس يعيبون اسامة ويطعنون في إمارته، فقام، كما حدثني سالم، فقال:" إنكم تعيبون اسامة وتطعنون في إمارته، وقد فعلتم ذلك في ابيه من قبل، وإن كان لخليقا للإمارة، وإن كان لاحب الناس كلهم إلي، وإن ابنه هذا بعده من احب الناس إلي، فاستوصوا به خيرا، فإنه من خياركم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَمَّرَ أُسَامَةَ، بَلَغَهُ أَنَّ النَّاسَ يَعِيبُونَ أُسَامَةَ وَيَطْعَنُونَ فِي إِمَارَتِهِ، فَقَامَ، كَمَا حَدَّثَنِي سَالِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تَعِيبُونَ أُسَامَةَ وَتَطْعَنُونَ فِي إِمَارَتِهِ، وَقَدْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ فِي أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَإِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّ النَّاسِ كُلِّهِمْ إِلَيَّ، وَإِنَّ ابْنَهُ هَذَا بَعْدَهُ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَاسْتَوْصُوا بِهِ خَيْرًا، فَإِنَّهُ مِنْ خِيَارِكُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کچھ لوگوں کا امیر مقرر کیا، لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کر رہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو، حالانکہ، اللہ کی قسم! وہ امارت کا حقدار تھا اور لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا اور اب اس کا یہ بیٹا اس کے بعد مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، لہٰذا اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی وصیت قبول کرو، کیونکہ یہ تمہارا بہترین ساتھی ہے۔“