سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو تنہا سفر کرنے کا نقصان معلوم ہو جائے تو رات کے وقت کوئی بھی تنہاسفر نہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ، حدثنا عمر بن عبد الله مولى غفرة، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لكل امة مجوس، ومجوس امتي الذين يقولون: لا قدر، إن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، ومَجُوسُ أُمَّتِي الَّذِينَ يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر امت کے مجوسی ہوئے ہیں اور میری امت کے مجوسی قدریہ (منکر ین تقدیر) ہیں اگر یہ بیمار ہوں تو تم ان کی عیادت کو نہ جاؤ اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شرکت نہ کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عمر بن عبدالله مولي غفرة ضعفه ابن معين ، وقال : لم يسمع من أحد من أصحاب النبي ، وقال أحمد: أكثر أحاديثه مراسيل
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہاہو تو کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کے ساتھ اس کا ہم نشین (شیطان) ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 506، وهذا إسناد حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، حدثنا سيار ، عن حفص بن عبيد الله ، ان عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب مات، فارادوا ان يخرجوه من الليل لكثرة الزحام، فقال ابن عمر : إن اخرتموه إلى ان تصبحوا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الشمس تطلع بقرن شيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ مَاتَ، فَأَرَادُوا أَنْ يُخْرِجُوهُ مِنَ اللَّيْلِ لِكَثْرَةِ الزِّحَامِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِنْ أَخَّرْتُمُوهُ إِلَى أَنْ تُصْبِحُوا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بِقَرْنِ شَيْطَانٍ".
حفص بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن زید بن خطاب کا انتقال ہوا تو لوگوں نے رات ہی کو انہیں تدفین کے لئے لے جانا چاہا کیونکہ رش بہت زیادہ ہو گیا تھا, سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ اگر صبح ہونے تک رک جاؤ تو اچھا ہے کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج شیطان کے سینگ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، حدثنا ابو بشر ، عن سعيد بن جبير ، قال: خرجت مع ابن عمر من منزله، فمررنا بفتيان من قريش، نصبوا طيرا يرمونه، وقد جعلوا لصاحب الطير كل خاطئة من نبلهم، قال: فلما راوا ابن عمر تفرقوا، فقال ابن عمر : من فعل هذا؟ لعن الله من فعل هذا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" لعن من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَنْزِلهِ، فَمَرَرْنَا بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ، نَصَبُوا طَيْرًا يَرْمُونَهُ، وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ كُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَعَنَ مَنْ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے گھر سے نکلا، ہمارا گزر قریش کے کچھ نوجوانوں پر ہوا جنہوں نے ایک پرندہ کو باندھ رکھا تھا اور اس پر اپنا نشانہ درست کر رہے تھے اور پرندے کے مالک سے کہہ رکھا تھا کہ جو تیر چوک جائے وہ تمھارا ہوگا، اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما غصے میں آ گئے اور فرمانے لگے یہ کون کر رہا ہے؟ اسی وقت سارے نوجوان دائیں بائیں ہو گئے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندارچیز کو باندھ کر اس پر نشانہ درست کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن ابن ابي ليلى ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعائشة:" ناوليني الخمرة من المسجد"، قالت: إنها حائض، قال:" إنها ليست في كفك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَةَ:" نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، قَالَتْ: إِنَّهَا حَائِضٌ، قَالَ:" إِنَّهَا لَيْسَتْ فِي كَفِّكِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”مجھے مسجد سے چٹائی پکڑانا“، وہ کہنے لگیں کہ وہ ایام سے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، فيه ابن أبى ليلى سيء الحفظ .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا يصلي في السفر إلا ركعتين، غير انه كان يتهجد من الليل"، قال: وكان ابن عمر لا يصلي في إلا ركعتين، غير انه كان يتجهد من الليل، قال جابر: فقلت لسالم: كانا يوتران؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا يُصَلِّي فِي السَّفَرِ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يَتَهَجَّدُ مِنَ اللَّيْلِ"، قال: وكان ابن عمر لا يصلي في إلا ركعتين، غير أنه كان يتجهد من الليل، قَالَ جَابِرٌ: فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: كَانَا يُوتِرَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں دو رکعت نماز ہی پڑھتے تھے، البتہ رات کو تہجد پڑھ لیا کرتے تھے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے سالم رحمہ اللہ سے پوچھا کیا وہ دونوں وتر پڑھتے تھے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي .