(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لتكونن هجرة بعد هجرة، إلى مهاجر ابيكم إبراهيم صلى الله عليه وسلم، حتى لا يبقى في الارضين إلا شرار اهلها، وتلفظهم ارضوهم، وتقذرهم روح الرحمن عز وجل، وتحشرهم النار مع القردة والخنازير، تقيل حيث يقيلون، وتبيت حيث يبيتون، وما سقط منهم فلها".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَتَكُونَنَّ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، إِلَى مُهَاجَرِ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى لَا يَبْقَى فِي الْأَرَضِينَ إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، وَتَلْفِظُهُمْ أَرَضُوهُمْ، وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَحْشُرُهُمْ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، تَقِيلُ حَيْثُ يَقِيلُونَ، وَتَبِيتُ حَيْثُ يَبِيتُونَ، وَمَا سَقَطَ مِنْهُمْ فَلَهَا".
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اس ہجرت کے بعد ایک اور ہجرت ہو گی، جو تمہارے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دارالہجرۃ کی طرف ہو گی، یہاں تک کہ زمین میں صرف بدترین لوگ رہ جائیں گے، جنہیں ان کی زمین نگل جائے گی۔ پروردگار کے نزدیک وہ گندے لوگ ہوں گے، انہیں آگ میں بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا، جہاں وہ آرام کریں گے وہ آگ بھی وہیں رک جائے گی، جہاں وہ رات گزاریں گے وہیں وہ بھی رات گزارے گی اور ان میں سے جو گرجائے گا وہ آگ کا حصہ ہو گا“۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى جناب، وشهر بن حوشب ليس بذاك، وقد اضطرب فيه.
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يخرج من امتي قوم يسيئون الاعمال، يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم"، قال يزيد: لا اعلم إلا قال:" يحقر احدكم عمله من عملهم، يقتلون اهل الإسلام، فإذا خرجوا فاقتلوهم، ثم إذا خرجوا فاقتلوهم، ثم إذا خرجوا فاقتلوهم، فطوبى لمن قتلهم، وطوبى لمن قتلوه، كلما طلع منهم قرن قطعه الله عز وجل"، فردد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرين مرة او اكثر، وانا اسمع.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يُسِيئُونَ الْأَعْمَالَ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ"، قَالَ يَزِيدُ: لَا أَعْلَمُ إِلَّا قَالَ:" يَحْقِرُ أَحَدَكُمْ عَمَلَهُ مِنْ عَمَلِهِمْ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ، فَإِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، فَطُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ، وَطُوبَى لِمَنْ قَتَلُوهُ، كُلَّمَا طَلَعَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قَطَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"، فَرَدَّدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ مَرَّةً أَوْ أَكْثَرَ، وَأَنَا أَسْمَعُ.
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک ایسی قوم بھی پیدا ہو گی جو بدکردار ہو گی یہ لوگ قرآن پڑھتے ہوں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے سامنے حقیر سمجھو گے وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے جب ان کا خروج ہو تو تم انہیں قتل کرنا اور جب تک ان کا خروج ہوتا رہے تم انہیں قتل کرتے رہنا، خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے اور خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جسے وہ قتل کریں جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اللہ اسے ختم کر دے گا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس یا اس سے زیادہ مرتبہ دہرائی اور میں سنتا رہا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6932، وهذا إسناد ضعيف، أبوجناب يحيى بن أبى حية ضعيف ومدلس، وشهر بن حوشب ضعيف .
(حديث مرفوع) حدثنا صفوان بن عيسى ، اخبرنا اسامة بن زيد ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رجع من احد، سمع نساء الانصار يبكين على ازواجهن، فقال:" لكن حمزة لا بواكي له" فبلغ ذلك نساء الانصار، فجئن يبكين على حمزة، قال: فانتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل، فسمعهن وهن يبكين، فقال:" ويحهن! لم يزلن يبكين بعد منذ الليلة؟! مروهن فليرجعن، ولا يبكين على هالك بعد اليوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَجَعَ مِنْ أُحُدٍ، سَمِعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ، فَقَالَ:" لَكِنْ حَمْزَةُ لَا بَوَاكِيَ لَهُ" فَبَلَغَ ذَلِكَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ، فَجِئْنَ يَبْكِينَ عَلَى حَمْزَةَ، قَالَ: فَانْتَبَهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَسَمِعَهُنَّ وَهُنَّ يَبْكِينَ، فَقَالَ:" وَيْحَهُنَّ! لَمْ يَزَلْنَ يَبْكِينَ بَعْدُ مُنْذُ اللَّيْلَةِ؟! مُرُوهُنَّ فَلْيَرْجِعْنَ، وَلَا يَبْكِينَ عَلَى هَالِكٍ بَعْدَ الْيَوْمِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد سے واپس ہوئے تو انصار کی عورتیں اپنے اپنے شوہروں پر رونے لگیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ کے لئے کوئی رونے والی نہیں ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی، بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رورہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آج حمزہ کے نام لے کر روتی ہی رہیں گی انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے پر مت روئیں۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ جملہ «اللّهُمَّ اغفِرليِ وَتُب عَلَيَّ اِنَّكَ اَنتَ التَوَّابُ الغَفُورٌ» دہرانے لگے حتٰی کہ گننے والے نے اسے اپنے ہاتھ پر سو مرتبہ شمار کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، يونس بن خباب ضعف، وأبو الفضل أو ابن الفضل مجهول، لكن سلف هذا الحديث برقم: 4726، و5354 من غير هذا الطريق، فهو صحيح .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن توبة العنبري ، قال: قال لي الشعبي : ارايت حديث الحسن عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ وقد قاعدت ابن عمر قريبا من سنتين، او سنة ونصف، فلم اسمعه روى عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا! قال: كان ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم سعد، فذهبوا ياكلون من لحم، فنادتهم امراة من بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم إنه لحم ضب، فامسكوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلوا او اطعموا، فإنه حلال او إنه لا باس به، توبة الذي شك فيه، ولكنه ليس من طعامي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ : أَرَأَيْتَ حَدِيثَ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَقَدْ قَاعَدْتُ ابْنَ عُمَرَ قَرِيبًا مِنْ سَنَتَيْنِ، أَوْ سَنَةٍ وَنِصْفٍ، فَلَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا! قَالَ: كَانَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ سَعْدٌ، فَذَهَبُوا يَأْكُلُونَ مِنْ لَحْمٍ، فَنَادَتْهُمْ امْرَأَةٌ مِنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَأَمْسَكُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا أَوْ اطْعَمُوا، فَإِنَّهُ حَلَالٌ أوَ إِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ، تَوْبَةُ الَّذِي شَكَّ فِيهِ، وَلَكِنَّهُ لَيْسَ مِنْ طَعَامِي".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ڈیڑھ دو سال کے قریب آتا جاتا رہا ہوں لیکن اس دوران میں نے اس کے علاوہ کوئی اور حدیث نہیں سنی (اور حسن کو دیکھ کر وہ کتنی حدیثیں بیان کرتے ہیں) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ " جن میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے " دسترخوان پر موجود گوشت کھانے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے پکار کر کہا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے یہ سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ رک گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھالو یہ حلال ہے اور اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ میرے کھانے کی چیز نہیں ہے۔“
حکیم حذاء کہتے ہیں کہ کسی شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر کی نماز کے متعلق دریافت کیا، انہوں نے فرمایا کہ سفر میں نماز کی دو رکعتیں ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين من أجل حكيم الحذاء .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عقيل بن طلحة ، سمعت ابا الخصيب ، قال:" كنت قاعدا، فجاء ابن عمر ، فقام رجل من مجلسه له، فلم يجلس فيه، وقعد في مكان آخر، فقال الرجل: ما كان عليك لو قعدت؟ فقال: لم اكن اقعد في مقعدك ولا مقعد غيرك، بعد شيء شهدته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام له رجل من مجلسه، فذهب ليجلس فيه، فنهاه رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ طَلْحَةَ ، سَمِعْتُ أَبَا الْخَصِيبِ ، قَالَ:" كُنْتُ قَاعِدًا، فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ مَجْلِسِهِ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ فِيهِ، وَقَعَدَ فِي مَكَانٍ آخَرَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا كَانَ عَلَيْكَ لَوْ قَعَدْتَ؟ فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ أَقْعُدُ فِي مَقْعَدِكَ وَلَا مَقْعَدِ غَيْرِكَ، بَعْدَ شَيْءٍ شَهِدْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ مَجْلِسِهِ، فَذَهَبَ لِيَجْلِسَ فِيهِ، فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوالخصیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما آگئے، ایک آدمی اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وہاں نہیں بیٹھے بلکہ دوسری جگہ جا کر بیٹھ گئے، اس آدمی نے کہا کہ اگر آپ وہاں بیٹھ جاتے تو کوئی حرج تو نہیں تھا؟ انہوں نے فرمایا: ”میں تمہاری یا کسی اور کی جگہ پر نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک آدمی آیا، دوسرے شخص نے اٹھ کر اپنی جگہ اس کے لئے خالی کر دی اور وہ آنے والا اس کی جگہ پر بیٹھنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرما دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال أبى الخصيب، فلم يؤثر توثيقه إلا عن ابن حبان، وقال الذهبي فى الميزان: لا يعرف .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن محمد بن ابي يعقوب ، سمعت ابن ابي نعم ، سمعت عبد الله بن عمر بن الخطاب ، وساله رجل عن شيء قال شعبة: واحسبه ساله عن المحرم يقتل الذباب؟!، فقال عبد الله: اهل العراق يسالون عن الذباب، وقد قتلوا ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم!! وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هما ريحانتي من الدنيا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ شَيْءٍ قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ سَأَلَهُ عَنِ الْمُحْرِمِ يَقْتُلُ الذُّبَابَ؟!، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَهْلُ الْعِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ!! وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمَا رَيْحَانَتِي مِنَ الدُّنْيَا".
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عراق کے کسی آدمی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر محرم کسی مکھی کو ماردے تو کیا حکم ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”یہ اہل عراق آ کر مجھ سے مکھی مارنے کی بارے میں پوچھ رہے ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو (کسی سے پوچھے بغیر ہی) شہید کر دیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کے متعلق فرمایا تھا کہ ”یہ دونوں میری دنیا کے ریحان ہیں“۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت ابا جعفر يعني المؤذن يحدث، عن مسلم ابي المثنى يحدث، عن ابن عمر ، قال: إنما" كان الاذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين وقال حجاج: يعني: مرتين مرتين، والإقامة مرة، غير انه يقول: قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، وكنا إذا سمعنا الإقامة توضانا، ثم خرجنا إلى الصلاة"، قال شعبة: لا احفظ غير هذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ يَعْنِي الْمُؤَذِّنَ يُحَدِّثُ، عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي الْمُثَنَّى يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: إِنَّمَا" كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ وَقَالَ حَجَّاجٌ: يَعْنِي: مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَالْإِقَامَةُ مَرَّةً، غَيْرَ أَنَّهُ يَقُولُ: قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، وَكُنَّا إِذَا سَمِعْنَا الْإِقَامَةَ تَوَضَّأْنَا، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الصَّلَاةِ"، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أَحْفَظُ غَيْرَ هَذَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور با سعادت میں اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہے جاتے البتہ «قد قامت الصلوة» دومرتبہ ہی کہا جاتا تھا اور ہم جب اقامت سنتے تو وضو کرتے اور نماز کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔