(حديث مرفوع) حدثنا محمد ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، قال: سمعت عبد الرحمن بن عبد الله يحدث، عن ابيه ، قال شعبة: واحسبه قد رفعه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" مثل الذي يعين عشيرته على غير الحق، مثل البعير ردي في بئر، فهو يمد بذنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يُعِينُ عَشِيرَتَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ، مَثَلُ الْبَعِيرِ رُدِّيَ فِي بِئْرٍ، فَهُوَ يَمُدُّ بِذَنَبِهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے غالبا مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص اپنے قبیلے والوں کی کسی ایسی بات پر مدد اور حمایت کرتا ہے جو ناحق اور غلط ہو، اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کسی کنوئیں میں گر پڑے، پھر اپنی دم کے سہارے کنوئیں سے باہر نکلنا چاہیے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن عند من يصحح سماع عبدالرحمن من أبيه، وضعيف عند من يقول: إنه لم يسمع منه إلا اليسير.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" لا يزال الرجل يصدق، ويتحرى الصدق، حتى يكتب صديقا، ولا يزال يكذب، ويتحرى الكذب، حتى يكتب كذابا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ، وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ، حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا، وَلَا يَزَالُ يَكْذِبُ، وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ، حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان مسلسل سچ بولتا اور اس کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے ”صدیق“ لکھ دیا جاتا ہے، اور انسان مسلسل جھوٹ بولتا اور اسی میں غور و فکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے ”کذاب“ لکھ دیا جاتا ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قتل کے معاملے میں اہل ایمان تمام لوگوں سے زیادہ عفیف اور عمدہ طریقہ رکھتے ہیں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قتل کے معاملے میں اہل ایمان تمام لوگوں سے زیادہ عفیف اور عمدہ طریقہ رکھتے ہیں۔“
رقم الحديث: 3600 (حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن منصور ، عن ربعي ، عن البراء بن ناجية ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" تدور رحى الإسلام بخمس وثلاثين، او ست وثلاثين، او سبع وثلاثين، فإن يهلكوا، فسبيل من قد هلك، وإن يقم لهم دينهم، يقم لهم سبعين عاما"، قال: قلت: امما مضى ام مما بقي؟ قال:" مما بقي".رقم الحديث: 3600 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ نَاجِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَدُورُ رَحَى الْإِسْلَامِ بِخَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، أَوْ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ يَهْلَكُوا، فَسَبِيلُ مَنْ قَدْ هَلَكَ، وَإِنْ يَقُمْ لَهُمْ دِينُهُمْ، يَقُمْ لَهُمْ سَبْعِينَ عَامًا"، قَالَ: قُلْتُ: أَمِمَّا مَضَى أَمْ مِمَّا بَقِيَ؟ قَالَ:" مِمَّا بَقِيَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسلام کی چکی پئنتیس (35)، چھتیس (36) یا سئنتیس (37) سال تک گھومتی رہے گی، اس کے بعد اگر مسلمان ہلاک ہوئے تو ہلاک ہونے والوں کی راہ پر چلے جائیں گے، اور اگر باقی بچ گئے تو ستر سال تک ان کا دین باقی رہے گا“، راوی نے پوچھا کہ اس کا تعلق ماضی کے ایام سے ہے یا مستقبل سے؟ انہوں نے فرمایا: ”مستقبل سے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، البراء بن ناجية قد عرفه العجلي وابن حبان.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو گزر گئے ہیں یا جو باقی ہیں؟ فرمایا: ”جو باقی ہیں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما رکھا تھا: ”میری طرف سے تمہیں اس بات کی اجازت ہے کہ میرے گھر کا پردہ اٹھا کر اندر آ جاؤ اور میری راز کی باتوں کو سن لو، تاآنکہ میں خود تمہیں منع کر دوں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2169، وهذا إسناد ضعيف ، إبراهيم لم يسمع من ابن مسعود.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہڈی والے گوشت میں بکری کی دستی کا گوشت زیادہ پسند تھا، اور دستی ہی کے گوشت میں زہر ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلایا گیا تھا، اور عام خیال یہی تھا کہ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں زہر ملایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير ، حدثنا يحيى الجابر ابو الحارث التيمي ، ان ابا ماجد ، رجل من بني حنيفة حدثه، قال: قال عبد الله بن مسعود : سالنا نبينا صلى الله عليه وسلم السير بالجنازة؟ فقال:" السير ما دون الخبب، فإن يك خيرا تعجل إليه او قال: لتعجل إليه، وإن يك سوى ذاك، فبعدا لاهل النار، الجنازة متبوعة، ولا تتبع، ليس منا من تقدمها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْجَابِرُ أَبُو الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ ، أَنَّ أَبَا مَاجدٍ ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : سَأَلْنَا نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّيْرِ بِالْجِنَازَةِ؟ فَقَالَ:" السَّيْرُ مَا دُونَ الْخَبَبِ، فَإِنْ يَكُ خَيْرًا تُعْجَلْ إِلَيْهِ أَوْ قَالَ: لِتُعْجَلْ إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَاكَ، فَبُعْدًا لِأَهْلِ النَّارِ، الْجِنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ، وَلَا تَتْبَعُ، لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَقَدَّمَهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ رفتار جو دوڑنے کے زمرے میں نہ آتی ہو، اگر وہ نیکوکار رہا ہوگا تو اس کے اچھے انجام کی طرف اسے جلد لے جایا جا رہا ہوگا، اور اگر وہ ایسا نہ ہوا تو اہل جہنم کو دور ہی ہونا چاہئے، اور جنازہ کو متبوع ہونا چاہئے نہ کہ تابع (جنازے کو آگے اور چلنے والوں کو اس کے پیچھے ہونا چاہئے)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ماجد، ويحيى الجابر ضعيف.