سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلال رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں اس لئے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں تم کھاتے پیتے رہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" بعث سرية قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فبلغت سهامهم احد عشر بعيرا، او اثني عشر بعيرا، ونفلوا بعيرا بعيرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَعَثَ سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِيرَةً، فَبَلَغَتْ سِهَامُهُمْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا، أَوْ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک سریہ روانہ فرمایا، انہیں مال غنیمت سے اونٹ ملے، ان کا حصہ بارہ بارہ اونٹ بنے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ایک اونٹ بطور انعام کے بھی عطاء فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3134 ، م : 1749 .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشغار"، قال مالك: والشغار ان يقول: انكحني ابنتك، وانكحك ابنتي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، قَالَ مَالِكٌ: وَالشِّغَارُ أَنْ يَقُولَ: أَنْكِحْنِي ابْنَتَكَ، وَأُنْكِحُكَ ابْنَتِي.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار (وٹے سٹے کی صورت) سے منع فرمایا ہے، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں نکاح شغار کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دو میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کر دیتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 5112 ، م : 1415 .
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ہی اقامت سے پڑی اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے بیان کیا کہ انہوں نے بھی اسی طرح کیا تھا اور انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن ابن عمر ، قال: قدم رجلان من المشرق، فخطبا، فعجب الناس من بيانهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بعض البيان سحر"، او" إن من البيان سحرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ بَيَانِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ سِحْرٌ"، أَوْ" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مشرق کی طرف سے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، انہوں نے جو گفتگو کی لوگوں کو اس کی روانی اور عمدگی پر تعجب ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک وہ پک نہ جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت بائع اور مشتری دونوں کو فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان يسافر بالقرآن إلى ارض العدو، مخافة ان يناله العدو".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقے میں سفر پر جاتے وقت قرآن کریم اپنے ساتھ لے جانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تک چاند دیکھ نہ لو، روزہ نہ رکھو اور چاند دیکھے بغیر عید بھی نہ مناؤ، اگر تم پر بادل چھا جائیں تو اندازہ کر لو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 1906 ، م : 1080 .