سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے متعلق فرمایا: ”یہ وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده من جهة بكر المزني صحيح ، خ : 5841 ، م : 2068 ، و أما بشر بن المحتفر فلا يعرف إلا في هذا الحديث مقروناً ببكر بن عبد الله ، و هو في عداد المجهولين ، و لايضر وجوده هنا في الإسناد ، لأنه مقرون ببكر وهو ثقة
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، قال: حدثني شعبة، عن قتادة ، عن المغيرة بن سلمان ، قال حجاج في حديثه: سمعت المغيرة بن سلمان، قال: سمعت ابن عمر ، يقول: كانت" صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي لا يدع: ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الصبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَلْمَانَ ، قَالَ حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ سَلْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: كَانَتْ" صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي لَا يَدَعُ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ نمازیں جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ترک نہیں فرماتے تھے، وہ ظہر کی نماز سے قبل دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، نیز مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1180 ، وهذا إسناد حسن .
یحیٰی بن وثاب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے غسل جمعہ کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت ابا إسحاق ، سمعت رجلا من اهل نجران، قال: سالت ابن عمر ، قلت: إنما اسالك عن شيئين: عن السلم في النخل، وعن الزبيب والتمر، فقال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل نشوان، قد شرب زبيبا وتمرا، قال: فجلده الحد، ونهى ان يخلطا، قال: واسلم رجل في نخل رجل فلم يحمل نخله، قال: فاتاه يطلبه، قال: فابى ان يعطيه، قال: فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" احملت نخلك؟" قال: لا، قال:" فبم تاكل ماله؟! قال: فامره فرد عليه، ونهى عن السلم في النخل حتى يبدو صلاحه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةَ ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ ، سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قُلْتُ: إِنَّمَا أَسْأَلُكَ عَنْ شَيْئَيْنِ: عَنِ السَّلَمِ فِي النَّخْلِ، وَعَنِ الزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ، فَقَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ نَشْوَانَ، قَدْ شَرِبَ زَبِيبًا وَتَمْرًا، قَالَ: فَجَلَدَهُ الْحَدَّ، وَنَهَى أَنْ يُخْلَطَا، قَالَ: وَأَسْلَمَ رَجُلٌ فِي نَخْلِ رَجُلٍ فَلَمْ يَحْمِلْ نَخْلُهُ، قَالَ: فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يُعْطِيَهُ، قَالَ: فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَحَمَلَتْ نَخْلُكَ؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَبِمَ تَأْكُلُ مَالَهُ؟! قَالَ: فَأَمَرَهُ فَرَدَّ عَلَيْهِ، وَنَهَى عَنِ السَّلَمِ فِي النَّخْلِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ.
نجران کے ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے دو چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، ایک تو کشمش اور کھجور کے متعلق اور ایک کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق (ادھار)۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نشے میں دھت ایک شخص کو لایا گیا، اس نے کشمش اور کھجور کی شراب پی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری فرمائی اور ان دونوں کو اکٹھا کرنے سے منع فرمایا۔ نیز ایک آدمی نے دوسرے کے لئے کھجور کے درخت میں بیع سلم کی، لیکن اس سال پھل ہی نہیں آیا، اس نے اپنے پیسے واپس لینا چاہے تو اس نے انکار کر دیا، وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں کے مالک سے پوچھا کہ کیا تمہارے درختوں پر پھل نہیں آیا؟ اس نے کہا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس کے پیسے کیوں روک رکھے ہیں؟“ چنانچہ اس نے اس کے پیسے لوٹا دئیے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل پکنے تک بیع سلم سے منع فرما دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة النجراني الذي روى عنه أبو إسحاق السبيعي .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں الاّ یہ کہ وہ بیع خیار ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2107 ، م : 1531 .
عبداللہ دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورس اور زعفران سے منع فرمایا ہے، میں نے پوچھا، محرم کو؟ فرمایا: ہاں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الله بن دينار ، سمعت ابن عمر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" خمس ليس على حرام جناح في قتلهن: الكلب العقور، والغراب، والحديا، والفارة، والحية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَمْسٌ لَيْسَ عَلَى حَرَامٍ جُنَاحٌ فِي قَتْلِهِنَّ: الْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحُدَيَّا، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحَيَّةُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانور ہیں جنہیں حالت احرام میں بھی مارنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے کو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" مفاتيح الغيب خمس، لا يعلمهن إلا الله: لا يعلم ما في غد إلا الله، ولا يعلم نزول الغيث إلا الله، ولا يعلم ما في الارحام إلا الله، ولا يعلم الساعة إلا الله، وما تدري نفس ماذا تكسب غدا، وما تدري نفس باي ارض تموت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ، لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ: لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ نُزُولَ الْغَيْثِ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ السَّاعَةَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”غیب کی پانچ باتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے، قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا۔“