(حديث مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، عن يحيى يعني ابن ابي إسحاق ، عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، قال: راى عمر بن الخطاب في سوق ثوبا من إستبرق، فقال: يا رسول الله، لو ابتعت هذا الثوب للوفد، قال:" إنما يلبس الحرير او قال: هذا من لا خلاق له"، قال: احسبه قال:" في الآخرة"، قال: فلما كان بعد ذاك اتي النبي صلى الله عليه وسلم بثوب منها، فبعث به إلى عمر، فكرهه، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، بعثت به إلي وقد قلت فيه ما سمعت:" إنما يلبس الحرير او قال: هذا من لا خلاق له"؟! قال:" إني لم ابعث به إليك لتلبسه، ولكن بعثت به إليك لتصيب به ثمنا"، قال سالم: فمن اجل هذا الحديث كان ابن عمر يكره العلم في الثوب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَأَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي سُوقٍ ثَوْبًا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ ابْتَعْتَ هَذَا الثَّوْبَ لِلْوَفْدِ، قَالَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ أَوْ قَالَ: هَذَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ"، قَالَ: أَحْسِبُهُ قَالَ:" فِي الْآخِرَةِ"، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَاكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ مِنْهَا، فَبَعَثَ بِهِ إِلَى عُمَرَ، فَكَرِهَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بَعَثْتَ بِهِ إِلَيَّ وَقَدْ قُلْتَ فِيهِ مَا سَمِعْتُ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ أَوْ قَالَ: هَذَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ"؟! قَالَ:" إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهِ إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهُ، وَلَكِنْ بَعَثْتُ بِهِ إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهِ ثَمَنًا"، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے ہوئے دیکھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ اگر آپ اسے خرید لیتے تو جمعہ کے دن پہن لیا کرتے یا وفود کے سامنے پہن لیا کرتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو“ چند دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے چند ریشمی حلے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بھجوا دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ نے خود ہی تو اس کے متعلق وہ بات فرمائی تھی جو میں نے سنی تھی اور اب آپ ہی نے مجھے یہ ریشمی جوڑا بھیج دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ اس لئے بھجوایا ہے کہ تم اسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے استعمال میں لے آؤ۔“
رقم الحديث: 4947 (حديث موقوف) حدثنا حدثنا إبراهيم بن حبيب بن الشهيد ، حدثنا ابي ، عن انس بن سيرين ، قال: قلت لعبد الله بن عمر : اقرا خلف الإمام؟ قال:" تجزئك قراءة الإمام". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قلت: ركعتي الفجر، اطيل فيهما القراءة؟ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الليل مثنى مثنى، قال: قلت: إنما سالتك عن ركعتي الفجر! قال: إنك لضخم!! الست تراني ابتدئ الحديث: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي الصبح اوتر بركعة، ثم يضع راسه، فإن شئت، قلت: نام، وإن شئت، قلت: لم ينم، ثم يقوم إليهما والاذان في اذنيه"، فاي طول يكون ثم؟!. (حديث موقوف) (حديث موقوف) قلت:" رجل اوصى بمال في سبيل الله، اينفق منه في الحج؟ قال: اما إنكم لو فعلتم كان من سبيل الله". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قال: قال: قلت: رجل تفوته ركعة مع الإمام، فسلم الإمام، ايقوم إلى قضائها قبل ان يقوم الإمام؟ قال: كان" الإمام إذا سلم، قام". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قلت: الرجل ياخذ بالدين اكثر من ماله؟ قال:" لكل غادر لواء يوم القيامة عند استه على قدر غدرته".رقم الحديث: 4947 (حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ قَالَ:" تُجْزِئُكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قُلْتُ: رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ، أُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا سَأَلْتُكَ عَنْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ! قَالَ: إِنَّكَ لَضَخْمٌ!! أَلَسْتَ تَرَانِي أَبْتَدِئُ الْحَدِيثَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ الصُّبْحَ أَوْتَرَ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يَضَعُ رَأْسَهُ، فَإِنْ شِئْتَ، قُلْتَ: نَامَ، وَإِنْ شِئْتَ، قُلْتَ: لَمْ يَنَمْ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَيْهِمَا وَالْأَذَانُ فِي أُذُنَيْهِ"، فَأَيُّ طُولٍ يَكُونُ ثُمَّ؟!. (حديث موقوف) (حديث موقوف) قُلْتُ:" رَجُلٌ أَوْصَى بِمَالٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَيُنْفَقُ مِنْهُ فِي الْحَجِّ؟ قَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ فَعَلْتُمْ كَانَ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: قُلْتُ: رَجُلٌ تَفُوتُهُ رَكْعَةٌ مَعَ الْإِمَامِ، فَسَلَّمَ الْإِمَامُ، أَيَقُومُ إِلَى قَضَائِهَا قَبْلَ أَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ؟ قَالَ: كَانَ" الْإِمَامُ إِذَا سَلَّمَ، قَامَ". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قُلْتُ: الرَّجُلُ يَأْخُذُ بِالدَّيْنِ أَكْثَرَ مِنْ مَالِهِ؟ قَالَ:" لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اسْتِهِ عَلَى قَدْرِ غَدْرَتِهِ".
انس بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ پوچھا کہ کیا میں قرأت خلف الامام کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے، میں نے پوچھا کہ کیا فجر کی سنتوں میں میں لمبی قرأت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے فجر کی سنتوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں، انہوں نے فرمایا تم بڑی موٹی عقل کے آدمی ہو دیکھ نہیں رہے کہ میں ابھی بات کا آغاز کر رہا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہوتا تو ایک رکعت ملا کر وتر پڑھ لیتے، پھر سر رکھ کر لیٹ جاتے اب تم چاہو تو یہ کہہ لو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے اور چاہو تو یہ کہہ لو کہ نہ سوتے، پھر اٹھ کر فجر کی سنتیں اس وقت پڑھتے جب اذان کی آواز کانوں میں آ رہی ہوتی تھی، تو اس میں کتنی اور کون سی طوالت ہو گی؟ پھر میں نے پوچھا کہ ایک آدمی ہے جس نے اپنا مال فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی وصیت کی ہے، کیا اس کا مال حج میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ایسا کر لو تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہی ہو گا، میں نے مزید پوچھا کہ اگر ایک شخص کی امام کے ساتھ ایک رکعت چھوٹ جائے، امام سلام پھیر لے، تو کیا یہ امام کے کھڑا ہونے سے پہلے اسے قضاء کر سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جب امام سلام پھیر دے تو مقتدی فورا کھڑا ہو جائے، پھر میں نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص قرض کے بدلے اپنے مال سے زیادہ وصول کرے تو کیا حکم ہے؟ فرمایا: قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے کولہوں کے پاس اس کے دھوکے کے بقدر جھنڈا لگا ہو گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال نہیں ہوئے، سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نکلا، تو وہ بھی حلال نہیں ہوئے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کو جا رہے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دیہاتی لوگ تمہاری نماز کے نام پر غالب نہ آ جائیں، یاد رکھو! اس کا نام نماز عشاء ہے، اس وقت یہ اپنے اونٹوں کا دودھ دوہتے ہیں (اس مناسبت سے عشاء کی نماز کو عتمہ کہہ دیتے ہیں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن الوليد ، حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، وليث ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد"، فقال ابنه: لا ناذن لهن يتخذن ذلك دغلا! فقال: تسمعني اقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول انت: لا؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، وَلَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ"، فَقَالَ ابْنُهُ: لَا نَأْذَنُ لَهُنَّ يَتَّخِذْنَ ذَلِكَ دَغَلًا! فَقَالَ: تَسْمَعُنِي أَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ أَنْتَ: لَا؟!.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم رات کے وقت اپنے اہل خانہ کو مسجد آنے سے نہ روکا کرو“، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کوئی بیٹا کہنے لگا کہ بخدا! ہم تو انہیں اس طرح نہیں چھوڑیں گے، وہ تو اسے اپنے لئے دلیل بنا لیں گی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو؟
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 899 ، م : 442 ، وهذا إسناد قوي .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانی میں خیر اور بھلائی رکھ دی گئی ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رات کی نماز سے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو، تم نے رات میں جتنی نماز پڑھی ہو گی، ان سب کی طرف سے یہ وتر کے لئے کافی ہو جائے گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 473 ، م : 729 ، وهذا إسناد جيد .