سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بد شگونی شرک ہے، ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے، لیکن یہ کہ اللہ اسے توکل کے ذریعے ختم کر دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة، وهو متكئ على عسيب، قال: فمر بقوم من اليهود، فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح، قال بعضهم: لا تسالوه، فسالوه عن الروح، فقالوا: يا محمد، ما الروح؟ فقام، فتوكا على العسيب، قال: فظننت انه يوحى إليه، فقال:" ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85"، قال: فقال بعضهم: قد قلنا لكم: لا تسالوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ، وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِقَوْمٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مَا الرُّوحُ؟ فَقَامَ، فَتَوَكَّأَ عَلَى الْعَسِيبِ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقَالَ:" وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85"، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ قُلْنَا لَكُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے کسی کھیت میں چل رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاٹھی ٹیکتے جا رہے تھے، چلتے چلتے یہودیوں کی ایک جماعت پر سے گزر ہوا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے متعلق سوال کرو، لیکن کچھ لوگوں نے انہیں سوال کرنے سے منع کیا، الغرض! انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق دریافت کیا اور کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! روح کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی، میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے، چنانچہ وہ کیفیت ختم ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [الإسراء: 85] »”یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ روح تو میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے“، یہ سن کر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ہم نے کہا تھا ناں کہ ان سے مت پوچھو۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا إني ابرا إلى كل خليل من خلته، ولو اتخذت خليلا، لاتخذت ابا بكر خليلا، إن صاحبكم خليل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خُلَّتِهِ، وَلَوْ اتَّخَذْتُ خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، إِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں ہر دوست کی دوستی سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، اور تمہارا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہی خاندان کے کئی غلام آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ سب اکٹھے ہی کسی ایک گھرانے والوں کو دے دیتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تفریق کرانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، جابر الجعفي ضعيف، وعبدالرحمن بن عبدالله لم يسمع من أبيه إلا الشيء اليسير.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي قيس ، عن الهزيل بن شرحبيل ، قال: جاء رجل إلى ابي موسى، وسليمان بن ربيعة، فسالهما عن ابنة، وابنة ابن، واخت لاب، فقالا: للبنت النصف، وللاخت النصف، وات ابن مسعود، فإنه سيتابعنا، قال: فاتى ابن مسعود، فساله، واخبره بما قالا، فقال ابن مسعود : لقد ضللت إذا وما انا من المهتدين! ساقضي بما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للابنة النصف، ولابنة الابن السدس، تكملة الثلثين، وما بقي فللاخت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ ، عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى، وَسُلَيْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، وأخت لأب، فقالا: للبنت النصف، وللأخت النصف، وأت ابن مسعود، فإنه سيتابعنا، قَالَ: فَأَتَى ابْنَ مَسْعُودٍ، فَسَأَلَهُ، وَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَا، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ! سَأَقْضِي بِمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ، تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ".
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابوموسی اور سیدنا سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کسی شخص کے ورثا میں ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن ہو تو تقسیم وراثت کس طرح ہو گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ کل مال کا نصف بیٹی کو مل جائے گا اور دوسرا نصف بہن کو اور تم سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو، وہ ہماری موافقت اور تائید کریں گے، چنانچہ وہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ گیا اور ان سے وہ مسئلہ پوچھا اور مذکورہ حضرات کا جواب بھی نقل کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے بھی یہی فتوی دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتگان میں سے نہ رہوں گا، میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، بیٹی کو کل مال کا نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو ثلث مکمل ہو جائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو مل جائے گا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعِفَّةَ وَالْغِنَى»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور غناء (مخلوق کے سامنے عدم احتیاج) کا سوال کرتا ہوں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب بھی دو چیزیں پیش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے اس چیز کو اختیار فرمایا جو زیادہ رشد و ہدایت والی ہوتی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، سالم لم يسمع من عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن سماك ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ابيه، قال: جمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن اربعون، قال عبد الله : فكنت من آخر من اتاه، فقال:" إنكم مصيبون، ومنصورون، ومفتوح لكم، فمن ادرك ذلك منكم، فليتق الله، وليامر بالمعروف، ولينه عن المنكر، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَكُنْتُ مِنْ آخِرِ مَنْ أَتَاهُ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ مُصِيبُونَ، وَمَنْصُورُونَ، وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَلْيَتَّقِ اللَّهَ، وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَلْيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمع فرمایا، اس وقت ہم لوگ چالیس افراد تھے، میں ان میں سب سے آخر میں آیا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ فتح و نصرت حاصل کرنے والے ہو، تم میں سے جو شخص اس زمانے کو پائے، اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے، اچھی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے روکے، اور جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لینا چاہئے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، عند من يصحح سماع عبدالرحمن بن عبدالله بن مسعود من أبيه مطلقاً ، وضعيف عند من يقول: إنه لم يسمع منه إلا اليسير.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، قال: كنت جالسا مع عبد الله وابي موسى ، فقالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بين يدي الساعة اياما ينزل فيها الجهل، ويرفع فيها العلم، ويكثر فيها الهرج"، قال: قلنا: وما الهرج؟ قال:" القتل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى ، فَقَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ أَيَّامًا يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ"، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ".
ابووائل کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، یہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے قریب جو زمانہ ہو گا اس میں جہالت کا نزول ہو گا، علم اٹھا لیا جائے گا اور اس میں ”ہرج“ کی کثرت ہوگی“، ہم نے ہرج کا معنی پوچھا تو فرمایا: ”قتل۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني بشير بن سلمان ، عن سيار ابي حمزة ، عن طارق بن شهاب ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من نزل به حاجة فانزلها بالناس، كان قمنا من ان لا تسهل حاجته، ومن انزلها بالله، آتاه برزق عاجل، او بموت آجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ سَلْمَانَ ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ نَزَلَ بِهِ حَاجَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ، كَانَ قَمِنًا مِنْ أَنْ لَا تَسْهُلَ حَاجَتُهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ، آتَاهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ، أَوْ بِمَوْتٍ آجِلٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو کوئی ضرورت پیش آئے اور وہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کر دے، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا کام آسان نہ ہو، اور جو شخص اسے اللہ کے سامنے بیان کرے تو اللہ اسے فوری رزق یا تاخیر کی موت عطا فرما دے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، سيار هذا هو أبو حمزة الكوفي وليس أبا الحكم.