سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے اس منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ بنو عبدالقیس کا وفد اپنے سردار کے ساتھ آیا، ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروبات کے متعلق پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حنتم، دباء، اور نقیر سے منع فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حميد ، عن بكر ، قال: ذكرت لابن عمر ، ان انسا حدثنا، ان النبي صلى الله عليه وسلم اهل بعمرة وحج، فقال: وهل انس، إنما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، واهللنا معه، فلما قدم، قال:" من لم يكن معه هدي، فليجعلها عمرة"، وكان مع النبي صلى الله عليه وسلم هدي، فلم يحل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ بَكْرٍ ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَنَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ، فَقَالَ: وَهِلَ أَنَسٌ، إِنَّمَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، وَأَهْلَلْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ:" مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً"، وَكَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيٌ، فَلَمْ يَحِلَّ.
بکر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو مغالطہ ہو گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں تو حج کا احرام باندھا تھا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ حج کا ہی احرام باندھا تھا، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ پہنچے تو فرمایا: ”جس شخص کے پاس ہدی کا جانور نہ ہو، اسے چاہئے کہ اسے عمرہ بنا لے اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی کا جانور تھا اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: اربعا تلقفتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لبيك اللهم لبيك لبيك، لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة، لك والملك لا شريك لك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَرْبَعًا تَلَقَّفْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چار جملے ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کئے ہیں اور وہ یہ کہ میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں، حکومت بھی آپ ہی کی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن عطية العوفي ، عن ابن عمر ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تباع الثمرة حتى يبدو صلاحها، قال: قالوا: يا رسول الله، ما صلاحها؟ قال: إذا ذهبت عاهتها، وخلص طيبها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُبَاعَ الثَّمَرَةُ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا صَلَاحُهَا؟ قَالَ: إِذَا ذَهَبَتْ عَاهَتُهَا، وَخَلَصَ طَيِّبُهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل پکنے سے پہلے اس کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! پھل پکنے سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس سے خراب ہونے کا خطرہ دور ہو جائے اور عمدہ پھل چھٹ جائے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: يا رسول الله! ماصلاحها؟...... وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج وعطية العوفي، وقد سلف، بإسناد صحيح برقم: 4525 ، وقوله: يا رسول الله ماصلاحها؟ ....... قلنا: الصحيح أن هذا التفسير من قول ابن عمر كما ورد عند البخاري: 1486، ومسلم: 1534.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اسهم للرجل وفرسه ثلاثة اسهم: سهما له، وسهمين لفرسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَسْهَمَ لِلرَّجُلِ وَفَرَسِهِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ: سَهْمًا لَهُ، وَسَهْمَيْنِ لِفَرَسِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ خیبر کے موقع پر) مرد اور اس کے گھوڑے کے تین حصے مقرر فرمائے تھے، جن میں سے ایک حصہ مرد کا اور دو حصے گھوڑے کے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک ایسا درخت جانتا ہوں جس کی برکت مرد مسلم کی طرح ہے، وہ کھجور کا درخت ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی سواری پر ہی نفل نماز پڑھ لیتے تھے خواہ اس کا رخ کسی بھی سمت میں ہوتا اور فرماتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ اس کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے تھے «وحيث ماكنتم فولوا وجوهكم» ۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا ليث ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بثوبي، او ببعض جسدي، وقال: يا عبد الله،" كن كانك غريب او عابر سبيل، وعد نفسك من اهل القبور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبِي، أَوْ بِبَعْضِ جَسَدِي، وَقَالَ: يا عَبْدَ اللَّهِ،" كُنْ كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرے کپڑے یا جسم کے کسی حصے کو پکڑ کر فرمایا: ”اے عبداللہ! دنیا میں اس طرح رہو، جیسے کوئی مسافر یا راہ گزر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 6416 دون قوله: وعد نفسك من أهل القبور فحسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يلبس المحرم البرنس، ولا القميص، ولا العمامة، ولا السراويل، ولا الخفين، إلا ان يضطر، يقطعه من عند الكعبين، ولا يلبس ثوبا مسه الورس ولا الزعفران، إلا ان يكون غسيلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ الْبُرْنُسَ، وَلَا الْقَمِيصَ، وَلَا الْعِمَامَةَ، وَلَا السَّرَاوِيلَ، وَلَا الْخُفَّيْنِ، إِلَّا أَنْ يَضْطَرَّ، يَقْطَعُهُ مِنْ عِنْدِ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا يَلْبَسُ ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ وَلَا الزَّعْفَرَانُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ غَسِيلًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم قمیض شلوار عمامہ اور موزے نہیں پہن سکتا الاّ یہ کہ اسے جوتے نہ ملیں، جس شخص کو جوتے نہ ملیں اسے چاہئے کہ وہ موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے، اسی طرح ٹوپی یا ایسا کپڑا جس پر ورس نامی گھاس یا زعفران لگی ہوئی ہو، وہ بھی محرم نہیں پہن سکتا الاّ یہ کہ اسے دھو لیا گیا ہو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے متعلق سوال پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اس کی ممانعت کرتا ہوں۔“