قزعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے کسی کام سے بھیجتے ہوئے فرمایا قریب آ جاؤ تاکہ میں تمہیں اس طرح رخصت کروں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے کام سے بھیجتے ہوئے رخصت کیا تھا، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں تمہارے دین و امانت اور تمہارے عمل کا انجام اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبدة بن سليمان ابو محمد الكلابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف على قليب بدر، فقال:" هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟"، ثم قال:" إنهم ليسمعون ما اقول"، فذكر ذلك لعائشة ، فقالت: وهل يعني ابن عمر، إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنهم الآن ليعلمون ان الذي كنت اقول لهم لهو الحق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْكِلابِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ، فَقَالَ:" هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ"، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ: وَهِلَ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ الآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ لَهُوَ الْحَقُّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے دن اس کنوئیں کے پاس آ کر کھڑے ہوئے جس میں صنادید قریش کی لاشیں پڑی تھیں اور ایک ایک کا نام لے لے کر فرمانے لگے، کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ بخدا! اس وقت یہ لوگ میری بات سن رہے ہیں، یحییٰ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب یہ حدیث معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگیں، اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن کی بخشش فرمائے انہیں وہم ہو گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اب یقین ہو گیا ہے کہ میں ان سے جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبدة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن ابن عمر ,عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه"، فذكر ذلك لعائشة ، فقالت: وهل يعني ابن عمر، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبر، فقال:" إن صاحب هذا ليعذب واهله يبكون عليه"، ثم قرات هذه الآية: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ,عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ: وَهِلَ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ:" إِنَّ صَاحِبَ هَذَا لَيُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَرَأَتْ هَذِهِ الآيَةَ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے“، کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ذکر کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ انہیں وہم ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر پر گزر ہوا تو اس کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ اس وقت اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر رو رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبدة ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من الجيوش والسرايا او الحج والعمرة، فإذا اوفى على اربية، كبر ثلاثا، ثم قال:" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون، عابدون ساجدون، لربنا حامدون، صدق وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الْجُيُوشِ وَالسَّرَايَا أَوْ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِذَا أَوْفَى عَلَى أُرْبِيَّةٍ، كَبَّرَ ثَلاَثًا، ثُمَّ قَالَ:" لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ، عَابِدُونَ سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج جہاد یا عمرہ سے واپس آتے تو زمین کے جس بلند حصے پر چڑھتے یہ دعا پڑھتے: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی حکومت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے توبہ کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں سجدہ کرتے ہوئے عبادت کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس آ رہے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اکیلے ہی شکت دے دی۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر جنگل میں انسان کو ایسا پانی ملے جہاں جانور اور درندے بھی آتے ہوں تو کیا اس سے وضو کیا جا سکتا ہے؟ میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا (اس میں گندگی سرایت نہیں کر تی)۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرائض سے پہلے یا بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے (سنتیں مراد ہیں)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن عثمان بن سراقة، لكن سلف متصلا بإسناد صحيح برقم: 4675.
(حديث مرفوع) حدثنا عبدة ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر كانوا" يبدؤون بالصلاة قبل الخطبة في العيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا" يَبْدَؤونَ بِالصَّلاَةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ فِي الْعِيدِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہ عید کے موقع پر خطبہ سے پہلے نماز پڑھایا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج قران میں ایک ہی طواف کیا تھا اور ان دونوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا تھا اور ہدی کا جانور راستے میں مقام قدیر سے خریدا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يحيي بن يمان كثير الخطأ، فقد تغير ونسي .