(حديث قدسي) حدثنا عمار بن محمد ابن اخت سفيان الثوري، عن إبراهيم ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل يبعث يوم القيامة مناديا ينادي: يا آدم، إن الله يامرك ان تبعث بعثا من ذريتك إلى النار، فيقول آدم: يا رب، ومن كم؟ قال: فيقال له: من كل مائة تسعة وتسعين"، فقال رجل من القوم: من هذا الناجي منا بعد هذا يا رسول الله؟ قال:" هل تدرون ما انتم في الناس؟ إلا كالشامة في صدر البعير".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُنَادِيًا يُنَادِي: يَا آدَمُ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَبْعَثَ بَعْثًا مِنْ ذُرِّيَّتِكَ إِلَى النَّارِ، فَيَقُولُ آدَمُ: يَا رَبِّ، وَمِنْ كَمْ؟ قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: مَنْ هَذَا النَّاجِي مِنَّا بَعْدَ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ؟ إِلَّا كَالشَّامَةِ فِي صَدْرِ الْبَعِيرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک منادی کو ندا لگانے کے لئے بھیجیں گے کہ اے آدم! اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی اولاد میں سے جہنم کے لئے لوگوں کو بھیجیں، وہ پوچھیں گے: پروردگار! کتنے میں سے کتنے؟ ارشاد ہوگا: ہر سو میں سے ننانوے“، ایک آدمی نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو اس کے بعد ہم میں سے بچے گا کون؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا خبر کہ لوگوں میں تمہاری مقدار کیا ہوگی؟ تم تو اونٹ کے سینے میں اس کے بلند حصے کی طرح ہو گے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف للين إبراهيم الهجري، وعمار مختلف فيه.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہیں اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہئے خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف للين إبراهيم الهجري.
(حديث مرفوع) حدثنا عمار بن محمد ، عن الهجري ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جاء خادم احدكم بطعامه، فليبدا به فليطعمه، او ليجلسه معه، فإنه ولي حره ودخانه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ خَادِمُ أَحَدِكُمْ بِطَعَامِهِ، فَلْيَبْدَأْ بِهِ فَلْيُطْعِمْهُ، أَوْ لِيُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد نبوی منقول ہے کہ ”جب تم میں سے کسی کا خادم اور نوکر کھانا لے کر آئے تو اسے چاہئے کہ سب سے پہلے اسے کچھ کھلا دے یا اپنے ساتھ بٹھا لے کیونکہ اس نے اس کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف للين الهجري، وهو إبراهيم بن مسلم ، وعمار بن محمد مختلف فيه.
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز نہ پڑھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھائی اور اس میں صرف ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات ، لكنه ليس هو بصحيح علي هذا اللفظ كما قال أبوداود.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود بن يزيد ، عن ابن مسعود ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" سجد بالنجم وسجد المسلمون، إلا رجلا من قريش اخذ كفا من تراب، فرفعه إلى جبهته، فسجد عليه"، قال عبد الله: فرايته بعد قتل كافرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَجَدَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ، إِلَّا رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ، فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، فَسَجَدَ عَلَيْهِ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کے آخر میں سجدہ تلاوت کیا اور تمام مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا، سوائے قریش کے ایک آدمی کے جس نے ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی کی طرف بڑھا کر اس پر سجدہ کر لیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعد میں میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں مارا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: لما انزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1 كان يكثر إذا قراها وركع ان يقول:" سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي إنك انت التواب الرحيم"، ثلاثا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 كَانَ يُكْثِرُ إِذَا قَرَأَهَا وَرَكَعَ أَنْ يَقُولَ:" سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ"، ثَلَاثًا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ نصر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اسے نماز میں پڑھتے تو اس کے رکوع میں تین مرتبہ یوں کہتے: ” «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ»”پاک ہے تیری ذات، اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، اے اللہ! مجھے بخش دے کیونکہ تو ہی توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن الحسن بن عبيد الله ، عن إبراهيم بن سويد ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذنك علي ان ترفع الحجاب، وان تستمع سوادي، حتى انهاك"، قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: سوادي: سري، قال: اذن له ان يسمع سره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذْنُكَ عَلَيَّ أَنْ تَرْفَعَ الْحِجَابَ، وَأَنْ تَسْتَمِعَ سِوَادِي، حَتَّى أَنْهَاكَ"، قال أَبو عبد الرحمن: قال أَبي: سِوَادِي: سِرِّي، قَالَ: أَذِنَ لَهُ أَنْ يَسْمَعَ سِرَّهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما رکھا تھا: ”میری طرف سے تمہیں اس بات کی اجازت ہے کہ میرے گھر کا پردہ اٹھا کر اندر آ جاؤ اور میری راز کی باتوں کو سن لو، تاآنکہ میں خود تمہیں منع کر دوں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2169، وهذا إسناد ضعيف، إبراهيم لم يسمع من عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيده ، عن عبد الله ، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم لحاجته، فقال:" التمس لي ثلاثة احجار"، قال: فاتيته بحجرين وروثة، قال: فاخذ الحجرين، والقى الروثة، وقال:" إنها ركس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَهَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ، فَقَالَ:" الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ"، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، قَالَ: فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ، وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ:" إِنَّهَا رِكْسٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے نکلے تو مجھ سے فرمایا کہ ”میرے پاس تین پتھر تلاش کر کے لاؤ“، میں دو پتھر اور لید کا ایک خشک ٹکڑا لا سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لئے اور لید کے ٹکڑے کو پھینک کر فرمایا: ”یہ ناپاک ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 156، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه عبدالله.