(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يلبي لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُلَبِّي لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ»”میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں حکومت بھی آپ ہی کی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: يوم الحديبية" اللهم اغفر للمحلقين"، فقال رجل: والمقصرين؟ فقال:" اللهم اغفر للمحلقين"، فقال: وللمقصرين؟ حتى قالها ثلاثا، او اربعا، ثم قال:" وللمقصرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: وَالْمُقَصِّرِينَ؟ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ"، فَقَالَ: وَلِلْمُقَصِّرِينَ؟ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، أَوْ أَرْبَعًا، ثُمَّ قَالَ:" وَلِلْمُقَصِّرِينَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ! حلق کر انے والوں کو معاف فرما دے۔“ لوگوں نے عرض کیا: قصر کرانے والوں کے لئے بھی تو دعا فرمائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ قصر کرانے والوں کے لئے فرمایا کہ اے اللہ! قصر کرانے والوں کو بھی معاف فرما دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رجلا نادى، فقال: يا رسول الله، ما يجتنب المحرم من الثياب؟ فقال:" لا يلبس السراويل، ولا القميص، ولا البرنس، ولا العمامة، ولا ثوبا مسه زعفران، ولا ورس، وليحرم احدكم في إزار ورداء ونعلين، فإن لم يجد نعلين، فليلبس خفين، وليقطعهما حتى يكونا اسفل من العقبين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلًا نَادَى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ:" لَا يَلْبَسُ السَّرَاوِيلَ، وَلَا الْقَمِيصَ، وَلَا الْبُرْنُسَ، وَلَا الْعِمَامَةَ، وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ، وَلَا وَرْسٌ، وَلْيُحْرِمْ أَحَدُكُمْ فِي إِزَارٍ وَرِدَاءٍ وَنَعْلَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنَ الْعَقِبَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! محرم کون سا لباس ترک کر دے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قمیض، شلوار، عمامہ اور موزے نہیں پہن سکتا الاّ یہ کہ اسے جوتے نہ ملیں جس شخص کو جوتے نہ ملیں، اسے چاہئے کہ وہ موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے، اسی طرح ٹوپی یا ایسا کپڑا جس پر ورس نامی گھاس یا زعفران لگی ہوئی ہو وہ بھی محرم نہیں پہن سکتا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «من العقبين» فشاذ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد اپنی قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے (بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا تھا)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دو آدمیوں کے درمیان غلام مشترک ہو اور ان میں سے کوئی ایک اپنے حصے سے آزاد کر دے تو دوسرے کے مالدار ہونے کی صورت میں اس کی قیمت لگوائی جائے گی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما حق امرئ مسلم تمر عليه ثلاث ليال إلا ووصيته عنده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَمُرُّ عَلَيْهِ ثَلَاثُ لَيَالٍ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص پر اگر کسی مسلمان کا کوئی حق ہو تو تین راتیں اس طرح نہیں گزرنی چاہئیں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان عمر حمل على فرس له في سبيل الله، ثم رآها تباع، فاراد ان يشتريها، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تعد في صدقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہ گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ «وابي» کہہ کر قسم کھایا کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص غیر اللہ کی قسم کھاتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔“
حكم دارالسلام: رجاله ثقات إلا أن سعد بن عبيدة لم يسمع هذا الحديث من ابن عمر مباشرة.