(حديث مرفوع) حدثنا الاسود بن عامر ، اخبرنا ابو بكر ، عن الاعمش ، عن عطاء بن ابي رباح ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا يعني ضن الناس بالدينار والدرهم، وتبايعوا بالعين، واتبعوا اذناب البقر، وتركوا الجهاد في سبيل الله، انزل الله بهم بلاء، فلم يرفعه عنهم حتى يراجعوا دينهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا يَعْنِي ضَنَّ النَّاسُ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، وَتَبَايَعُوا بِالْعَيْنِ، وَاتَّبَعُوا أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَتَرَكُوا الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَنْزَلَ اللَّهُ بِهِمْ بَلَاءً، فَلَمْ يَرْفَعْهُ عَنْهُمْ حَتَّى يُرَاجِعُوا دِينَهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ دینار و درہم میں بخل کر نے لگیں، عمدہ اور بڑھیا چیزیں خریدنے لگیں، گائے کی دموں کی پیروی کرنے لگیں اور جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیں تو اللہ ان پر مصائب کو نازل فرمائے گا اور اس وقت تک انہیں دور نہیں کرے گا جب تک لوگ دین کی طرف واپس نہ آ جائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عطاء بن أبى رباح لم يسمع من ابن عمر
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، اخبرنا ابو إسرائيل ، عن فضيل ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: مسى رسول الله صلى الله عليه وسلم بصلاة العشاء، حتى صلى المصلي، واستيقظ المستيقظ، ونام النائمون، وتهجد المتهجدون، ثم خرج، فقال:" لولا ان اشق على امتي امرتهم ان يصلوا هذا الوقت"، او هذه الصلاة، او نحو ذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلُ ، عَنْ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: مَسَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، حَتَّى صَلَّى الْمُصَلِّي، وَاسْتَيْقَظَ الْمُسْتَيْقِظُ، وَنَامَ النَّائِمُونَ، وَتَهَجَّدَ الْمُتَهَجِّدُونَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوا هَذَا الْوَقْتَ"، أَوْ هَذِهِ الصَّلَاةَ، أَوْ نَحْوَ ذَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں اتنی تاخیر کر دی کہ نماز پڑھنے والوں نے نماز پڑھ لی، جاگنے والے جاگتے رہے، سونے والے سو گئے اور تہجد پڑھنے والوں نے تہجد پڑھ لی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت پر تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز اسی وقت پڑھا کریں“ یا اس کے قریب کوئی جملہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى إسرائيل، وأصل الحديث الصحيح، وهو قوله: «لو لا أن أشق على أمتي ......» أخرجه مسلم : 639
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما، ان العباس" استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في ان يبيت تلك الليلة بمكة من اجل السقاية، فاذن له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، أَنَّ الْعَبَّاسَ" اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنْ يَبِيتَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ بِمَكَّةَ مِنْ أَجْلِ السِّقَايَةِ، فَأَذِنَ لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت سرانجام دینے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منٰی کے ایام میں مکہ مکرمہ میں ہی رہنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بطحاء میں رات گزارتے تھے اور ذکر کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یوں ہی کیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے وقت زیتون کا وہ تیل استعمال فرماتے تھے جس میں پھول ڈال کر انہیں جوش نہ دیا گیا ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاذ ، حدثنا عاصم بن محمد ، سمعت ابي يقول: سمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يزال هذا الامر في قريش ما بقي من الناس اثنان"، قال: وحرك اصبعيه يلويهما هكذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ"، قَالَ: وَحَرَّكَ أِصْبَعَيْهِ يَلْوِيهِمَا هَكَذَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خلافت اس وقت تک قریش میں رہے گی جب تک دو آدمی (متفق و متحد) رہیں گے“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنی دو انگلیوں کو حرکت دی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے اور چلتے چلتے کھانا کھا لیتے تھے (کیونکہ جہاد کی مصروفیت میں کھانے پینے کے لئے وقت کہاں؟)۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاذ ، حدثنا ابن عون ، عن مسلم مولى لعبد القيس، قال معاذ: كان شعبة يقول: القري، قال: قال: رجل لابن عمر ارايت الوتر، اسنة هو؟ قال: ما سنة،" اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، واوتر المسلمون"، قال: لا، اسنة هو؟! قال: مه اتعقل؟! اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، واوتر المسلمون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ مَوْلًى لِعَبْدِ الْقَيْسِ، قَالَ مُعَاذٌ: كَانَ شُعْبَةُ يَقُولُ: الْقُرِّيِّ، قَالَ: قَالَ: رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ أَرَأَيْتَ الْوِتْرَ، أَسُنَّةٌ هُوَ؟ قَالَ: مَا سُنَّةٌ،" أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ"، قَالَ: لَا، أَسُنَّةٌ هُوَ؟! قَالَ: مَهْ أََتَعْقِلُ؟! أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ.
ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں وتر سنت ہیں؟ انہوں نے فرمایا: سنت کا کیا مطلب؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور تمام مسلمانوں نے وتر پڑھے ہیں، اس نے کہا میں آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا، میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا وتر سنت ہیں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رکو! کیا تمہاری عقل کام کرتی ہے؟ میں کہہ تو رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھے ہیں اور مسلمانوں نے بھی۔