(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن ابيه ، عن عبد الله بن ابي المجالد ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من انتفى من ولده ليفضحه في الدنيا، فضحه الله يوم القيامة على رؤوس الاشهاد، قصاص بقصاص".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ انْتَفَى مِنْ وَلَدِهِ لِيَفْضَحَهُ فِي الدُّنْيَا، فَضَحَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُؤُوسِ الْأَشْهَادِ، قِصَاصٌ بِقِصَاصٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے بچے کو دنیا میں رسوا کرنے کے لئے اپنے سے اس کے نسب کی نفی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام گواہوں کی موجودگی میں رسوا کرے گا، یہ ادلے کا بدلہ ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختصر نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے اور خود بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے ہوئے سورت صفّٰت (کی چند آیات) پر اکتفاء فرماتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سعادت میں یہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں میں سب سے بہتر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تین فضیلتیں ملی ہیں اور ان میں سے ہر ایک فضیلت ایسی ہے جو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا اور ان سے ان کے یہاں اولاد ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے تمام دروازے بند کروا دئیے سوائے ان کے دروازے کے اور غزوہ خیبر کے دن انہیں جھنڈا عطاء فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، هشام بن سعد ضعفوه، يكتب حديثه للمتابعات ولا يحتج به، والقسم الأول منه صحيح، كما سلف في: 4626
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن يزيد بن بشر ، عن ابن عمر ، قال:" بني الإسلام على خمس: شهادة ان لا إله إلا الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصوم رمضان"، قال: فقال له رجل: والجهاد في سبيل الله، قال ابن عمر: الجهاد حسن، هكذا حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بِشْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ"، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: الْجِهَادُ حَسَنٌ، هَكَذَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ ایک آدمی نے پوچھا: جہاد فی سبیل اللہ؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جہاد ایک اچھی چیز ہے لیکن اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہی چیزیں بیان فرمائی تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه علتان: أولهما: انقطاعه، لأن سالما لم يسمعه من زيد، بينهما عطية بن قيس الكلابي مولي لبني عامر، وثانيهما: جهالة حال يزيد بن بشر
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي اليقظان ، عن زاذان ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاثة على كثبان المسك يوم القيامة رجل ام قوما وهم به راضون، ورجل يؤذن في كل يوم وليلة خمس صلوات، وعبد ادى حق الله تعالى وحق مواليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ بِهِ رَاضُونَ، وَرَجُلٌ يُؤَذِّنُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، وَعَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ تَعَالَى وَحَقَّ مَوَالِيهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن تین طرح کے لوگ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ آدمی جو لوگوں کا امام ہو اور لوگ اس سے خوش ہوں، ایک وہ آدمی جو روزانہ پانچ مرتبہ اذان دیتا ہو اور ایک وہ غلام جو اللہ کا اور اپنے آقا کا حق ادا کرتا ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو اليقظان ضعفه غير واحد من الأئمة، لكن يكتب حديثه فى المتابعات و الشواهد
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني ابو يحيى الطويل ، عن ابي يحيى القتات ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" يعظم اهل النار في النار، حتى إن بين شحمة اذن احدهم إلى عاتقه مسيرة سبع مئة عام، وإن غلظ جلده سبعون ذراعا، وإن ضرسه مثل احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى الطَّوِيلُ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى القَتَّاتِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَعْظُمُ أَهْلُ النَّارِ فِي النَّارِ، حَتَّى إِنَّ بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِ أَحَدِهِمْ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةَ سَبْعِ مِئَةِ عَامٍ، وَإِنَّ غِلَظَ جِلْدِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا، وَإِنَّ ضِرْسَهُ مِثْلُ أُحُدٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں اہل جہنم کے جسم موٹے ہو جائیں گے حتٰی کہ ان کے کان کی لو سے لے کر کندھے تک سات سال کی مسافت ہو گی، کھال کی موٹائی ستر گز ہو گئی اور ایک داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو گی۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رقبٰی (کسی کی موت تک کوئی مکان یا زمین دینے) سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے جس کے لئے رقبیٰ کیا گیا وہ اسی کا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، حبيب بن أبى ثابت مدلس، وقد عنعن، وقد صرح عند عبد الرزاق 16920 أنه لم يسمع من ابن عمر فى الرقبي شيئا
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عكرمة بن عمار ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فقال:" إن الكفر من هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْكُفْرَ مِنْ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”فتنہ یہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، م:2905، وهذا إسناد حسن من أجل عكرمة بن عمار
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر جنگل میں انسان کو ایسا پانی ملے جہاں جانور اور درندے بھی آتے ہوں تو کیا اس سے وضو کیا جا سکتا ہے؟ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو اس میں گندگی سرایت نہیں کر تی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، محمد بن إسحاق صرح بالتحديث عند الدارقطني، فانتفت شبهة تدليسه
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه لم يكن نبي قبلي إلا وصفه لامته، ولاصفنه صفة لم يصفها من كان قبلي، إنه اعور، والله تبارك وتعالى ليس باعور، عينه اليمنى كانها عنبة طافية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا وَصَفَهُ لِأُمَّتِهِ، وَلَأَصِفَنَّهُ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا مَنْ كَانَ قَبْلِي، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، عَيْنُهُ الْيُمْنَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے پہلے جو نبی بھی آئے انہوں نے اپنی امت کے سامنے دجال کا حلیہ ضرور بیان کیا ہے اور میں تمہیں اس کی ایک ایسی علامت بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کی اور وہ یہ کہ دجال کانا ہو گا، اللہ کانا نہیں ہو سکتا اس کی (دجال کی) دائیں آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3439، م: 169، وهذا إسناد حسن لولا عنعنة محمد ابن إسحاق