(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا ابو جناب ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة"، قال: فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت البعير يكون به الجرب، فتجرب الإبل؟ قال:" ذلك القدر، فمن اجرب الاول؟!".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَنَابٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ"، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الْبَعِيرَ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ، فَتَجْرَبُ الْإِبِلُ؟ قَالَ:" ذَلِكَ الْقَدَرُ، فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ؟!".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بیماری متعدی ہونے کا نظریہ صحیح نہیں۔ بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، الو کے منحوس ہونے کی کوئی حقیقت نہیں ہے“، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! سو اونٹوں میں ایک خارش زدہ اونٹ شامل ہو کر ان سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے (اور آپ کہتے ہیں کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی؟)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی تو تقدیر ہے، یہ بتاؤ اس پہلے اونٹ کو خارش میں کس نے مبتلا کیا؟“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن رزين بن سليمان الاحمري ، عن ابن عمر ، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الرجل يطلق امراته ثلاثا، فيتزوجها آخر، فيغلق الباب، ويرخى الستر، ثم يطلقها قبل ان يدخل بها، هل تحل للاول؟ قال:" لا، حتى يذوق العسيلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ رَزِينِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْمَرِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سُئِل النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَيَتَزَوَّجُهَا آخَرُ، فَيُغْلَقُ الْبَابُ، وَيُرْخَى السِّتْرُ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، هَلْ تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ:" لَا، حَتَّى يَذُوقَ الْعُسَيْلَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کر لے دروازے بند ہو جائیں اور پردے لٹکا دئیے جائیں لیکن دخول سے قبل ہی وہ اسے طلاق دے دے تو کیا وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی؟ فرمایا: نہیں، جب تک کہ وہ دوسرا شوہر اس کا شہد نہ چکھ لے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة رزين بن سليمان الأحمري
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ ہمیں یہاں موت نہ دیجئے گا یہاں تک کہ آپ ہمیں یہاں سے نکال کر لے جائیں۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وإسناده صحيح إن ثبت سماع سعيد بن أبى هند من ابن عمر، فلم نجد فى كتب الرجال سماعه منه، وهو قد أدرك عبد الله بن عباس، وسمع منه، فهو معاصر لعبد الله بن عمر، ولم يوصف بالتدليس
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا حنظلة ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان تضرب الصورة، يعني الوجه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ تُضْرَبَ الصُّوَرَة، يَعْنِي الْوَجْهَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد الله بن نافع ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يعجل احدكم عن طعامه للصلاة"، قال: وكان ابن عمر يسمع الإقامة وهو يتعشى، فلا يعجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَعْجَلْ أَحَدُكُمْ عَنْ طَعَامِهِ لِلصَّلَاةِ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَسْمَعُ الْإِقَامَةَ وَهُوَ يَتَعَشَّى، فَلَا يَعْجَلُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا جائے اور نماز کھڑی ہو جائے تو فارغ ہونے سے پہلے نماز کے لئے کھڑا نہ ہو، خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسے ہی کرتے تھے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن نافع، لكن لم يتفرد به، فقد تابعه عليه أيوب فيما يأتي برقم: 5806، وابن جريح فيما يأتي برقم: 6359
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد العزيز بن عمر ، عن قزعة ، قال: قال لي ابن عمر: اودعك كما ودعني رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استودع الله دينك وامانتك وخواتيم عملك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: أُوَدِّعُكَ كَمَا وَدَّعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ".
قزعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: قریب آ جاؤ تاکہ میں تمہیں اسی طرح رخصت کروں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں رخصت کرتے تھے پھر فرمایا کہ میں تمہارے دین و امانت اور تمہارے عمل کا انجام اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، فإن بين عبد العزيز و قزعة راويا آخر اختلف فيه على عبد العزيز
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا نافع بن عمر الجمحي ، عن سعيد بن حسان ، عن ابن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" ينزل بعرفة وادي نمرة، فلما قتل الحجاج ابن الزبير ارسل إلى ابن عمر: اية ساعة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يروح في هذا اليوم؟ فقال: إذا كان ذاك رحنا، فارسل الحجاج رجلا ينظر اي ساعة يروح؟ فلما اراد ابن عمر ان يروح، قال: ازاغت الشمس؟ قالوا: لم تزغ الشمس، قال: ازاغت الشمس؟ قالوا: لم تزغ، فلما قالوا: قد زاغت، ارتحل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَنْزِلُ بِعَرَفَةَ وَادِيَ نَمِرَةَ، فَلَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ: أَيَّةَ سَاعَةٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ فَقَالَ: إِذَا كَانَ ذَاكَ رُحْنَا، فَأَرْسَلَ الْحَجَّاجُ رَجُلًا يَنْظُرُ أَيَّ سَاعَةٍ يَرُوحُ؟ فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرُوحَ، قَالَ: أَزَاغَتْ الشَّمْسُ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ الشَّمْسُ، قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ، فَلَمَّا قَالُوا: قَدْ زَاغَتْ، ارْتَحَلَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات کی وادی نمرہ میں پڑاؤ کیا تھا جب حجاج یوسف نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس قاصد کو یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن (نو ذی الحجہ کو) کس وقت کوچ فرماتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب ہم یہاں سے کوچ کریں گے وہ وہی گھڑی ہو گی حجاج نے یہ سن کر ایک آدمی کو بھیجا، جو یہ دیکھتا رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کس وقت روانہ ہوتے ہیں؟ جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روانگی کا ارادہ کیا تو پوچھا کہ کیا سورج غروب ہو گیا؟ لوگوں نے جواب دیا، نہیں، تھوڑی دیر بعد انہوں نے پھر یہی پوچھا اور لوگوں نے جواب دیا ابھی نہیں جب لوگوں نے کہا کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعيد بن حسان الحجازي لم يرو عنه إلا إبراهيم بن نافع و نافع ابن عمر الجمحي، وذكره ابن حبان فى «الثقات» ولم يؤثر توثيقه عن أحد غيره
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے وقت زیتون کا وہ تیل استعمال فرماتے تھے جس میں پھول ڈال کر انہیں جوش نہ دیا گیا ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن فراس ، عن ابي صالح ، عن زاذان ، عن ابن عمر : انه دعا غلاما له، فاعتقه، فقال: ما لي من اجره مثل هذا، لشيء رفعه من الارض، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من لطم غلامه، فكفارته عتقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ دَعَا غُلَامًا لَهُ، فَأَعْتَقَهُ، فَقَالَ: مَا لِي مِنْ أَجْرِهِ مِثْلُ هَذَا، لِشَيْءٍ رَفَعَهُ مِنَ الْأَرْضِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ لَطَمَ غُلَامَهُ، فَكَفَّارَتُهُ عِتْقُهُ".
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے کسی غلام کو بلا کر اسے آزاد کر دیا اور زمین سے کوئی تنکا وغیرہ اٹھا کر فرمایا کہ مجھے اس تنکے کے برابر بھی اسے آزاد کر نے پر ثواب نہیں ملے گا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ مارے اس کا کفارہ یہی ہے کہ اسے آزاد کر دے۔