(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كنتم ثلاثة، فلا ينتجي اثنان دون صاحبهما"، قال: قلنا: فإن كانوا اربعا؟ قال:" فلا يضر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَنْتَجِي اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا"، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنْ كَانُوا أَرْبَعًا؟ قَالَ:" فَلَا يَضُرُّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کر نے لگا کرو۔“ ہم نے پوچھا: اگر چار ہوں تو؟ فرمایا: ”پھر کوئی حرج نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن ابي رواد ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" لا يدع ان يستلم الحجر والركن اليماني في كل طواف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَان" لَا يَدَعُ أَنْ يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِي فِي كُلِّ طَوَافٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی طواف میں حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام ترک نہیں کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني ابن دينار سمعت ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا احدكم قال لاخيه: يا كافر، فقد باء بها احدهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا أَحَدُكُمْ قَالَ لِأَخِيهِ: يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص جب اپنے بھائی کو ”اے کافر“ کہتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک تو کافر ہو کر لوٹتا ہی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني عبد الله بن ابي لبيد ، عن ابي سلمة ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا يغلبنكم الاعراب على اسم صلاتكم، فإنها العشاء، إنما يدعونها العتمة، لإعتامهم بالإبل لحلابها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي لَبِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ:" لَا يَغْلِبَنَّكُمْ الْأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلَاتِكُمْ، فَإِنَّهَا الْعِشَاءُ، إِنَّمَا يَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ، لِإِعْتَامِهِمْ بِالْإِبِلِ لِحِلَابِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دیہاتی لوگ تمہاری نماز کے نام پر غالب نہ آ جائیں، یاد رکھو، اس کا نام نماز عشاء ہے، اس وقت یہ اپنے اونٹوں کا دودھ دوہتے ہیں اس مناسبت سے عشاء کی نماز کو ”عتمہ“ کہہ دیتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن حسين ، حدثنا عمرو بن شعيب ، حدثني سليمان مولى ميمونة، قال: اتيت على ابن عمر وهو بالبلاط، والقوم يصلون في المسجد، قلت: ما يمنعك ان تصلي مع الناس، او القوم؟ قال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تصلوا صلاة في يوم مرتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ مَوْلَى مَيْمُونَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ بِالْبَلَاطِ، وَالْقَوْمُ يُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ، قُلْتُ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ النَّاسِ، أَوْ الْقَوْمِ؟ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُصَلُّوا صَلَاةً فِي يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ".
سلیمان مولیٰ میمونہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اس وقت وہ درختوں کی جھاڑیوں میں تھے اور لوگ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھ رہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک دن میں ایک ہی نماز کو دو مرتبہ نہ پڑھو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن مالك ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من شرب الخمر في الدنيا ولم يتب منها، حرمها في الآخرة لم يسقها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مَالِكٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ مِنْهَا، حُرِمَهَا فِي الْآخِرَةِ لَمْ يُسْقَهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں شراب پئے اور اس سے توبہ نہ کرے تو وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا اور وہاں اسے شراب نہیں پلائی جائے گی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، اخبرني نافع ، قال: لا اعلمه إلا عن عبد الله ان العباس استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ان يبيت بمكة ايام مني من اجل السقاية، فرخص له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، قَال: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ الْعَبَّاسَ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ أَيَّامَ مِنًي مِنْ أَجْلِ السِّقَايَةِ، فَرَخَّصَ لَهُ".
نافع رحمہ اللہ سے غالباً سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت میں سر انجام دینے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منٰی کے ایام میں مکہ مکرمہ میں ہی رہنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشغار"، قال: قلت لنافع: ما الشغار؟ قال: يزوج الرجل ابنته ويتزوج ابنته، ويزوج الرجل اخته ويتزوج اخته، بغير صداق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، قَالَ: قُلْتُ لِنَافِعٍ: مَا الشِّغَارُ؟ قَالَ: يُزَوِّجُ الرَّجُلَ ابْنَتَهُ وَيَتَزَوَّجُ ابْنَتَهُ، وَيُزَوِّجُ الرَّجُلَ أُخْتَهُ وَيَتَزَوَّجُ أُخْتَهُ، بِغَيْرِ صَدَاقٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار (وٹے سٹے کی صورت) سے منع فرمایا ہے۔ راوی نے نافع سے شغار کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کسی سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دے اور وہ اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دے یا اپنی بہن کا کسی سے نکاح کر کے خود اس کی بہن سے نکاح کر لے اور مہر مقرر نہ کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان ، سمعت سعيد بن جبير ، قال: سئلت عن المتلاعنين، ايفرق بينهما؟ في إمارة ابن الزبير، فما دريت ما اقول، فقمت من مكاني إلى منزل ابن عمر ، فقلت: ابا عبد الرحمن المتلاعنان ايفرق بينهما؟ فقال: سبحان الله!! إن اول من سال عن ذلك فلان بن فلان، قال: يا رسول الله، ارايت الرجل يرى امراته على فاحشة، فإن تكلم تكلم بامر عظيم، وإن سكت سكت على مثل ذلك؟ فسكت، فلم يجبه، فلما كان بعد اتاه، فقال: الذي سالتك عنه قد ابتليت به؟ فانزل الله عز وجل هؤلاء الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6، حتى بلغ ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 9" فبدا بالرجل، فوعظه وذكره، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: والذي بعثك بالحق ما كذبتك، ثم ثنى بالمراة، فوعظها وذكرها، واخبرها ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: والذي بعثك بالحق إنه لكاذب، قال: فبدا بالرجل، فشهد اربع شهادات بالله: إنه لمن الصادقين، والخامسة: ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم ثنى بالمراة، فشهدت اربع شهادات بالله: إنه لمن الكاذبين، والخامسة: ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ!! إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَرَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، فَإِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ؟ فَسَكَتَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ أَتَاهُ، فَقَالَ: الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6، حَتَّى بَلَغَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9" فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُكَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، قَالَ: فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ: إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ: أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ: إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر کے دور خلافت میں مجھ سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ جن مرد و عورت کے درمیان لعان ہوا ہو کیا ان دونوں کے درمیان تفریق کی جائے گی (یا خود بخود ہو جائے گی؟) مجھے کوئی جواب نہ سوجھا تو میں اپنی جگہ سے اٹھا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر پہنچا اور ان سے عرض کیا، اے ابوعبدالرحمن! لعان کر نے والوں کے درمیان تفریق کی جائے گی؟ انہوں نے میرا سوال سن کر سبحان اللہ کہا اور فرمایا: ”لعان کے متعلق سب سے پہلے فلاں بن فلاں نے سوال کیا تھا، اس نے عرض کیا تھا، یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو بدکاری کرتا ہوا دیکھتا ہے وہ بولتا ہے تو بہت بڑی بات کہتا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو اتنی بڑی بات پر خاموش رہتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سوال کا جواب دینے کے بجائے سکوت فرمایا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ شخص دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے جو سوال پوچھا تھا میں اس میں مبتلا ہو گیا ہوں، اس پر اللہ نے سورت نور کی یہ آیات «والذين يرمون ازواجهم . . . . . . ان كان من الصدقين» نازل فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے مطابق مرد سے لعان کا آغاز کرتے ہوئے اسے وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے وہ کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، دوسرے نمبر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو رکھا اسے بھی وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے، وہ کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ جھوٹا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے اس کا آغاز کیا اور اس نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، پھر عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر ادی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى يعني ابن سعيد ، حدثنا هشام بن عروة ، اخبرني ابي ، اخبرني ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا طلع حاجب الشمس، فاخروا الصلاة حتى تبرز، فإذا غاب حاجب الشمس، فاخروا الصلاة حتى تغيب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَبْرُزَ، فَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکلنا شروع ہو تو جب تک وہ نمایاں نہ ہو جائے اس وقت تک نماز نہ پڑھو اسی طرح جب سورج کا کنارہ غروب ہونا شروع ہو تو اس کے مکمل غروب ہونے تک نماز نہ پڑھو۔“