سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر جنگل میں انسان کو ایسا پانی ملے، جہاں جانور اور درندے بھی آتے ہوں تو کیا اس سے وضو کیا جا سکتا ہے؟ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا (اس میں گندگی سرایت نہیں کرتی)۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، و هذا أسناد حسن، محمد ابن إسحاق صرح بالتحديث عند دارقطني، فانتفت شبهة تدليسه
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دن میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی طرف رخ کر کے اور قبلہ کی طرف پشت کر کے قضاء حاجت فرما رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن إدريس ، اخبرنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" كنا في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ننام في المسجد نقيل فيه، ونحن شباب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَنَامُ فِي الْمَسْجِدِ نَقِيلُ فِيهِ، وَنَحْنُ شَبَابٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مسجد میں قیلولہ کرنے کے لئے لیٹ اور سو جاتے تھے اور اس وقت ہم جوان تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ابن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: اصاب عمر ارضا بخيبر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاستامره فيها، فقال: اصبت ارضا بخيبر، لم اصب مالا قط انفس عندي منه، فما تامر به؟ قال:" إن شئت حبست اصلها وتصدقت بها"، قال: فتصدق بها عمر: ان لا تباع، ولا توهب، ولا تورث، قال: فتصدق بها عمر في الفقراء والقربى والرقاب وفي سبيل الله تبارك وتعالى وابن السبيل والضيف، لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف، او يطعم صديقا، غير متاثل فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَال: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَهُ فِيهَا، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُ بِهِ؟ قَالَ:" إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا"، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ: أَنْ لَا تُبَاعَ، وَلَا تُوهَبَ، وَلَا تُوَرَّثَ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا، غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ فِيهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین حصے میں ملی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق مشورہ لینا چاہا،چنانچہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے حصے میں خیبر کی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا آیا ہے کہ اس سے عمدہ مال میرے پاس کبھی نہیں آیا، آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اس کی اصل اپنے پاس رکھ لو اور اس کے منافع صدقہ کر دو۔“ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فقراء قریبی رشتہ داروں، غلاموں، مجاہدین، مسافروں اور مہمانوں کے لئے وقف کر دیا اور فرمایا کہ اس زمین کے متولی کے لئے خود بھلے طریقے سے اس میں سے کچھ کھانے میں یا اپنے دوست کو جو اس سے اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہو، کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، ان غيلان بن سلمة الثقفي اسلم وتحته عشر نسوة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اختر منهن اربعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی نے جس وقت اسلام قبول کیا ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو (اور باقی چھ کو طلاق دے دو)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده وبعمل الأئمة المتبوعین به، وهذا الإسناد، وإن كان رجاله ثقات رجال الشيخين، إلا أن معمرا رواه بالعراق، وحدث به من حفظه، فوصل إسناده وأخطأ فيه، ورواه عبدالرزاق في «المصنف» عن معمر عن الزهري مرسلا، وكذلك رواه مالك في المؤطا عن الزهري مرسلا، وهذا الصحيح، فإن معمرا كان يحدث في اليمن من كتبه، فلا يقع له الوهم، وأما ما حدث به خارج اليمين! فكان يحدث به من حفظه فيقع له بعض الوهم.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرض نماز میں ہماری امامت کرتے ہوئے ایک ہی رکعت میں دو یا تین سورتیں بھی پڑھ لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشهر تسع وعشرون، هكذا وهكذا وهكذا، فإن غم عليكم فاقدروا له"، قال: وكان ابن عمر إذا كان ليلة تسع وعشرين، وكان في السماء سحاب او قتر اصبح صائما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ لَيْلَةُ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، وَكَانَ فِي السَّمَاءِ سَحَابٌ أَوْ قَتَرٌ أَصْبَحَ صَائِمًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہینہ کبھی ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے اس لئے اگر تم پر بادل چھا جائیں تو اندازہ کر لو۔“ نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شعبان کی ٢٩ تاریخ ہونے کے بعد اگر بادل یا غبار چھایا ہوا ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا هشام بن عروة ، اخبرني ابي ، اخبرني ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تتحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها، فإنها تطلع بين قرني شيطان، فإذا طلع حاجب الشمس، فلا تصلوا حتى تبرز، وإذا غاب حاجب الشمس، فلا تصلوا حتى تغيب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَتَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَإِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَلَا تُصَلُّوا حَتَّى تَبْرُزَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَلَا تُصَلُّوا حَتَّى تَغِيبَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کیا کرو کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے جب سورج کا کنارہ نکلنا شروع ہو تو جب تک وہ نمایا نہ ہو جائے اس وقت تم نماز نہ پڑھو، اسی طرح جب سورج کا کنارہ غروب ہونا شروع ہو تو اس کے مکمل غروب ہونے تک نماز نہ پڑھو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6، يقوم في رشحه إلى انصاف اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، يَقُومُ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ”جب لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يركز الحربة يصلي إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَرْكُزُ الْحَرْبَةَ يُصَلِّي إِلَيْهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات سترہ کے طور پر نیزہ گاڑ کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔