(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ماعز بن مالك، فقال:" احق ما بلغني عنك؟" , قال: وما بلغك عني؟ قال:" بلغني انك فجرت بامة آل فلان؟" , قال: نعم , فرده حتى شهد اربع مرات، ثم امر برجمه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، فَقَالَ:" أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْك؟" , قَالَ: وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي؟ قَالَ:" بَلَغَنِي أَنَّكَ فَجَرْتَ بِأَمَةِ آلِ فُلَانٍ؟" , قَالَ: نَعَمْ , فَرَدَّهُ حَتَّى شَهِدَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے ملے اور فرمایا: ”تمہارے بارے مجھے جو بات معلوم ہوئی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟“ انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا بات میرے متعلق معلوم ہوئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم سے آل فلاں کی باندی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب ہوگیا ہے؟“ انہوں نے اس کی تصدیق کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بھیج دیا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے متعلق چار مرتبہ اس کا اعتراف کر لیا، تب کہیں جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کاش! آپ نے مجھے اس وقت دیکھا ہوتا جب میں سمندر کی کالی مٹی لے کر فرعون کے منہ میں بھر رہا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف على بن زيد و يوسف بن مهران لين الحديث
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک مرتبہ مجھ سے جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ کو نماز کی محبت عطاء کی گئی ہے، اس لئے اسے جتنا چاہیں اختیار کریں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف على بن زيد، و يوسف بن مهران لين
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، وعفان , قالا: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن علي بن زيد ، قال عفان , اخبرنا علي بن زيد ، عن يوسف بن مهران ، عن ابن عباس : ان رجلا اتى عمر، فقال: امراة جاءت تبايعه، فادخلتها الدولج، فاصبت منها ما دون الجماع , فقال: ويحك! لعلها مغيب في سبيل الله؟ قال: اجل , قال: فائت ابا بكر، فاساله , قال: فاتاه فساله , فقال: لعلها مغيب في سبيل الله؟ قال: فقال مثل قول عمر، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له مثل ذلك، قال:" فلعلها مغيب في سبيل الله؟" , ونزل القرآن واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات سورة هود آية 114 إلى آخر الآية، فقال: يا رسول الله , الي خاصة، ام للناس عامة؟ فضرب عمر صدره بيده، فقال: لا , ولا نعمة عين، بل للناس عامة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صدق عمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ , قالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ عَفَّانُ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، فَقَالَ: امْرَأَةٌ جَاءَتْ تُبَايِعُهُ، فَأَدْخَلْتُهَا الدَّوْلَجَ، فَأَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ , فَقَالَ: وَيْحَكَ! لَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: أَجَلْ , قَالَ: فائْتِ أَبَا بَكْرٍ، فَاسْأَلْهُ , قَالَ: فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ , فَقَالَ: لَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُمَر، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ:" فَلَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟" , وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ سورة هود آية 114 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلِي خَاصَّةً، أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً؟ فَضَرَبَ عُمَرُ صَدْرَهُ بِيَدِهِ، فَقَال: لَا , وَلَا نَعْمَةَ عَيْنٍ، بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ عُمَرُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک عورت کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا، وہ ایک شخص کے پاس کچھ خریداری کرنے کے لئے آئی، اس نے اس عورت سے کہا کہ گودام میں آجاؤ، میں تمہیں وہ چیز دے دیتا ہوں، وہ عورت جب گودام میں داخل ہوئی تو اس نے اسے بوسہ دے دیا اور اس سے چھیڑ خانی کی، اس عورت نے کہا کہ افسوس! میرا تو شوہر بھی غائب ہے، اس پر اس نے اسے چھوڑ دیا اور اپنی حرکت پر نادم ہوا، پھر وہ) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افسوس! شاید اس کا شوہر اللہ کے راستہ میں جہاد کی وجہ سے موجود نہ ہوگا؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس مسئلے کا حل تم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے معلوم کرو، چنانچہ اس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ مسئلہ پوچھا، انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ شاید اس کا شوہر اللہ کے راستہ میں جہاد کی وجہ سے موجود نہ ہوگا، پھر انہوں نے اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔ وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ ”شاید اس عورت کا خاوند موجود نہیں ہوگا؟“ اور اس کے متلعق قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوگئی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ . . .﴾ [هود: 114] »”دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کیجئے، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں . . .۔“ اس آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا قرآن کریم کا یہ حکم خاص طور پر میرے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے یہ عمومی حکم ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: تو اتنا خوش نہ ہو، یہ سب لوگوں کے لئے عمومی حکم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”عمر نے سچ کہا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره. وهذا إسناد ضعيف، لضعف على بن زيد، و يوسف بن مهران لين
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اس وقت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، ہم نے انہیں یہی عام پانی پینے کے لئے پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا اور آئندہ بھی اسی طرح کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، و يوسف بن مهران لين
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزوں میں شفا ہے، شہد پینے میں، سینگی لگوانے میں اور آگ کے ذریعے زخم کو داغنے میں، لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مشرکین اپنے سر کے بالوں میں مانگ نکالا کرتے تھے جبکہ اہل کتاب انہیں یوں ہی چھوڑ دیتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جن معاملات میں کوئی حکم نہ آتا ان میں مشرکین کی نسبت اہل کتاب کی متابعت و موافقت زیادہ پسند تھی، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مانگ نہیں نکالتے تھے لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگ نکالنا شروع کر دی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابو خيثمة ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن ابي الطفيل ، قال: رايت معاوية يطوف بالبيت عن يساره عبد الله بن عباس، وانا اتلوهما في ظهورهما، اسمع كلامهما، فطفق معاوية يستلم ركن الحجر، فقال له عبد الله ابن عباس :" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستلم هذين الركنين" , فيقول معاوية دعني منك يا ابن عباس، فإنه ليس منها شيء مهجور , فطفق ابن عباس لا يزيده، كلما وضع يده على شيء من الركنين، قال له ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عَنْ يَسَارِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَأَنَا أَتْلُوهُمَا فِي ظُهُورِهِمَا، أَسْمَعُ كَلَامَهُمَا، فَطَفِقَ مُعَاوِيَةُ يَسْتَلِمُ رُكْنَ الْحَجَرَ، فَقَالَ لَهُ عبد الله ابْنُ عَبَّاسٍ :" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَلِمْ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ" , فَيَقُولُ مُعَاوِيَةُ دَعْنِي مِنْكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْهَا شَيْءٌ مَهْجُورٌ , فَطَفِقَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا يَزِيدُهُ، كُلَّمَا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى شَيْءٍ مِنَ الرُّكْنَيْنِ، قَالَ لَهُ ذَلِكَ.
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، ان کی بائیں جانب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور ان دونوں کے پیچھے میں تھا اور ان دونوں حضرات کی باتیں سن رہا تھا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب حجر اسود کا استلام کرنے لگے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو کونوں کا (جو اب آئیں گے) استلام نہیں کیا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ابن عباس! مجھے چھوڑ دیجئے، کیونکہ بیت اللہ کا کوئی حصہ بھی مہجور و متروک نہیں ہے، لیکن سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب کسی رکن پر ہاتھ رکھتے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان سے برابر یہی کہتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا داود بن عبد الرحمن ، عن عمرو بن دينار ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم اربعا: عمرة من الحديبية، وعمرة القضاء في ذي القعدة من قابل، وعمرة الثالثة من الجعرانة، والرابعة التي مع حجته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا: عُمْرَةً مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ مِنْ قَابِلٍ، وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ، وَالرَّابِعَةَ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چار مرتبہ عمرہ کیا ہے، ایک مرتبہ حدیبیہ سے، ایک مرتبہ ذیقعدہ کے مہینے میں اگلے سال عمرۃ القضاء، ایک مرتبہ جعرانہ سے اور چوتھی مرتبہ اپنے حج کے موقع پر۔