(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا ايوب ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" التمسوها في العشر الاواخر في تاسعة تبقى، او خامسة تبقى، او سابعة تبقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى، أَوْ خَامِسَةٍ تَبْقَى، أَوْ سَابِعَةٍ تَبْقَى".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا کہ ”اسے رمضان کے عشرہ اخیرہ میں تلاش کرو، نو راتیں باقی رہ جانے پر یا پانچ راتیں باقی رہ جانے پر، یا سات راتیں باقی رہ جانے پر۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة , حدثني ابي ، عن ابي إسحاق ، عن الارقم بن شرحبيل ، عن ابن عباس ، قال:" لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم امر ابا بكر ان يصلي بالناس، ثم وجد خفة فخرج، فلما احس به ابو بكر اراد ان ينكص , فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم، فجلس إلى جنب ابي بكر عن يساره واستفتح من الآية التي انتهى إليها ابو بكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ , حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ وَجَدَ خِفَّةً فَخَرَجَ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ أَرَادَ أَنْ يَنْكُصَ , فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ يَسَارِهِ وَاسْتَفْتَحَ مِنَ الْآيَةِ الَّتِي انْتَهَى إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیماری میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ محسوس ہوئی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا اور خود ان کے پہلو میں بائیں جانب تشریف فرما ہو گئے، اور وہیں سے تلاوت شروع فرما دی جہاں سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چھوڑی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح، رواية زكريا بن أبى زائدة عن أبى إسحاق بعد التغيير، لكنه توبع.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سفر میں جو شخص روزہ رکھے یا جو شخص روزہ نہ رکھے، کسی میں کیڑے مت نکا لو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور چھوڑا بھی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل او غيره، عن جابر ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قرية على راس اربعة فراسخ او قال: فرسخين يوم عاشوراء، فامر من اكل ان لا ياكل بقية يومه، ومن لم ياكل ان يتم صومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ أَوْ غَيْرِهِ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَرْيَةٍ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعَةِ فَرَاسِخَ أَوْ قَالَ: فَرْسَخَيْنِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَمَرَ مَنْ أَكَلَ أَنْ لَا يَأْكُلَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ أَنْ يُتِمَّ صَوْمَهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مدینہ منورہ سے دو یا چار فرسخ کے فاصلے پر واقع ایک بستی میں عاشورہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام بھجوایا کہ ”جو شخص صبح سے اب تک کچھ کھا پی چکا ہے، وہ دن کے بقیہ حصے میں کچھ نہ کھائے، اور جس نے اب تک کچھ کھایا نہیں، اسے چاہئے کہ وہ اپنے روزے کو مکمل کر لے (یعنی مغرب تک کھانے پینے سے رکا رہے)۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وكيع شك فى شيخه وجابر الجعفي ضعيف.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ،" ان رجلا جاء مسلما على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاءت امراته مسلمة بعده، فقال: يا رسول الله، إنها اسلمت معي فردها عليه النبي صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَتْ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً بَعْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا أَسْلَمَتْ مَعِي فَرَدَّهَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا، کچھ عرصے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی، اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے میرے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا (کسی مصلحت کی وجہ سے اسے مخفی رکھا تھا)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کی بیوی قرار دے کر اس ہی کے پاس واپس لوٹا دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، رواية سماك عن عكرمة مضطربة.