(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يعرض الكتاب على جبريل عليه السلام في كل رمضان، فإذا اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليلة التي يعرض فيها ما يعرض اصبح وهو اجود من الريح المرسلة، لا يسال عن شيء إلا اعطاه، فلما كان في الشهر الذي هلك بعده عرض عليه عرضتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَعْرِضُ الْكِتَابَ عَلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي كُلِّ رَمَضَانَ، فَإِذَا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلَةِ الَّتِي يَعْرِضُ فِيهَا مَا يَعْرِضُ أَصْبَحَ وَهُوَ أَجْوَدُ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ، لَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَعْطَاهُ، فَلَمَّا كَانَ فِي الشَّهْرِ الَّذِي هَلَكَ بَعْدَهُ عَرَضَ عَلَيْهِ عَرْضَتَيْنِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرماتے تھے، جس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن کریم سناتے، اس کی صبح کو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی مانگا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ عطاء فرما دیتے، اور جس سال رمضان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دو مرتبہ قرآن کریم سنایا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا عمر بن ذر ، عن ابيه ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبريل:" ما يمنعك ان تزورنا اكثر مما تزورنا؟ قال: فنزلت وما نتنزل إلا بامر ربك سورة مريم آية 64 إلى آخر الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ:" مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ سورة مريم آية 64 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (فترت وحی کا زمانہ گزرنے کے بعد) حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ ”آپ ہمارے پاس ملاقات کے لئے اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے جتنا اب آتے ہیں؟“ اس پر آیت نازل ہوئی: «﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ﴾ [مريم: 64] »”ہم تو اسی وقت زمین پر اترتے ہیں جب آپ کے رب کا حکم ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون ، اخبرنا ابن جريج ، عن عطاء ، قال: حضرنا مع ابن عباس جنازة ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم بسرف، قال: فقال ابن عباس:" هذه ميمونة، إذا رفعتم نعشها فلا تزعزعوها ولا تزلزلوها، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عنده تسع نسوة، وكان يقسم لثمان، وواحدة لم يكن ليقسم لها , قال عطاء: التي لم يكن يقسم لها صفية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَرِفَ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" هَذِهِ مَيْمُونَةُ، إِذَا رَفَعْتُمْ نَعْشَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهُ تِسْعُ نِسْوَةٍ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ، وَوَاحِدَةٌ لَمْ يَكُنْ لِيَقْسِمَ لَهَا , قَالَ عَطَاءٌ: الَّتِي لَمْ يَكُنْ يَقْسِمُ لَهَا صَفِيَّةُ".
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ سرف نامی مقام پر ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ موجود تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: یہ میمونہ ہیں، جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو چار پائی کو تیزی سے حرکت نہ دینا اور نہ ہی اسے ہلانا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج مطہرات تھیں، جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ کو باری دیا کرتے (ان میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں) اور ایک زوجہ کو (ان کی اجازت اور مرضی کے مطابق) باری نہیں ملتی تھی۔ عطاء کہتے ہیں کہ جس زوجہ محترمہ کی باری مقرر نہیں تھی، وہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں، (لیکن جمہور محققین کی رائے کے مطابق وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ واللہ اعلم)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا عثمان ، عن سعيد ، عن ابن عباس ، قال: كان" اكثر ما يصلي رسول الله صلى الله عليه وسلم الركعتين اللتين قبل الفجر آمنا بالله وما انزل إلينا وما انزل إلى إبراهيم وإسماعيل سورة البقرة آية 136 إلى آخر الآية، والاخرى آمنا بالله واشهد بانا مسلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ" أَكْثَرُ مَا يُصَلِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ سورة البقرة آية 136 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَالْأُخْرَى آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی پہلی رکعت میں «﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ﴾ [البقرة: 136] » اور دوسری رکعت میں «﴿آمَنَّا بِاللّٰهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران: 52] » کی تلاوت فرماتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات اس تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے تھے کہ ہم لوگ کہتے تھے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے، اور بعض اوقات اس تسلسل سے افطار فرماتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی روزہ نہیں رکھیں گے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارا بہترین سرمہ ”اثمد“ ہے جو آنکھوں کی بینائی کو تیز کرتا ہے اور پلکوں کے بال اگاتا ہے۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن سعيد بن جبير ، قال: لقيني ابن عباس ، فقال: تزوجت، قال: قلت: لا، قال: تزوج، ثم لقيني بعد ذلك، فقال: تزوجت، قال: قلت: لا، قال:" تزوج فإن خير هذه الامة اكثرها نساء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: لَقِيَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ: تَزَوَّجْتَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: تَزَوَّجْ، ثُمَّ لَقِيَنِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: تَزَوَّجْتَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ:" تَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً".
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا: شادی کر لو، اس بات کو کچھ عرصہ گزر گیا، دوبارہ ملاقات ہونے پر انہوں نے پھر یہی پوچھا کہ اب شادی ہوگئی؟ میں نے پھر نفی میں جواب دیا، اس پر انہوں نے فرمایا کہ شادی کر لو کیونکہ اس امت میں جو ذات سب سے بہترین تھی (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بیویاں زیادہ تھیں (تو تم کم از کم ایک سے ہی شادی کر لو، چار سے نہ سہی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط ، حدثنا ابو إسحاق الشيباني ، عن حماد ، عن إبراهيم ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا ارسلت الكلب فاكل من الصيد فلا تاكل، فإنما امسك على نفسه، وإذا ارسلته فقتل ولم ياكل فكل، فإنما امسك على صاحبه" , قال عبد الله: وكان في كتاب ابي، عن إبراهيم، قال: سمعت ابن عباس، فضرب عليه ابي كذا، قال: اسباط.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَرْسَلْتَ الْكَلْبَ فَأَكَلَ مِنَ الصَّيْدِ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِذَا أَرْسَلْتَهُ فَقَتَلَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى صَاحِبِهِ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَضَرَبَ عَلَيْهِ أَبِي كَذَا، قَالَ: أَسْبَاطٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم شکاری کتا شکار پر چھوڑو اور وہ شکار میں سے کچھ کھا لے تو تم اسے نہ کھاؤ، کیونکہ اس نے وہ شکار اپنے لئے روک رکھا ہے، اور اگر تم شکاری کتا چھوڑو اور وہ جا کر شکار کو مار ڈالے لیکن خود کچھ نہ کھائے، تو تم اسے کھا لو کیونکہ اب اس نے وہ شکار اپنے مالک کے لئے کیا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، إبراهيم نخعي لم يسمع من ابن عباس.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”تین چیزیں ایسی ہیں جو مجھ پر تو فرض ہیں لیکن تمہارے لئے وہ نفل ہیں، ایک وتر، دوسرے (صاحب نصاب نہ ہونے کے باوجود) قربانی اور تیسرے چاشت کی نماز۔“