سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے - جس نے ایام کی حالت میں اپنی بیوی سے قربت کی ہو - یہ فرمایا کہ ”وہ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، عن مجالد ، عن الشعبي ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من تكلم يوم الجمعة والإمام يخطب فهو كمثل الحمار يحمل اسفارا، والذي يقول له: انصت ليس له جمعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَكَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَهُوَ كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا، وَالَّذِي يَقُولُ لَهُ: أَنْصِتْ لَيْسَ لَهُ جُمُعَةٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران بات چیت کرے تو اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے بہت سا بوجھ اٹھا رکھا ہو، اور جو اس بولنے والے سے کہے کہ خاموش ہو جاؤ، اس کا کوئی جمعہ نہیں ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثني ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: لو ان الناس غضوا من الثلث إلى الربع، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الثلث كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَوْ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الثُّلُثُ كَثِيرٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کاش! لوگ وصیت کرنے میں تہائی سے کمی کر کے چوتھائی کو اختیار کر لیں، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ قرار دیا ہے۔
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ مکرمہ میں دس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اور مدینہ منورہ میں بھی دس سال تک، انہوں نے فرمایا: کون کہتا ہے؟ یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ مکرمہ وحی کا نزول دس سال ہوا ہے اور 65 یا اس سے زیادہ (سال انہوں نے عمر پائی ہے)۔
حكم دارالسلام: لعل هذا الحديث من منكرات العلاء بن صالح.
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا فضيل يعني ابن غزوان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع:" يا ايها الناس، اي يوم هذا؟" , قالوا: هذا يوم حرام، قال: اي بلد هذا؟ قالوا: بلد حرام، قال:" فاي شهر هذا؟" , قالوا: شهر حرام، قال:" إن اموالكم ودماءكم واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، ثم اعادها مرارا، ثم رفع راسه إلى السماء، فقال اللهم هل بلغت مرارا" , قال: يقول ابن عباس: والله إنها لوصية إلى ربه عز وجل، ثم قال:" الا فليبلغ الشاهد الغائب لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ غَزْوَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" , قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ حَرَامٌ، قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ قَالُوا: بَلَدٌ حَرَامٌ، قَالَ:" فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟" , قَالُوا: شَهْرٌ حَرَامٌ، قَالَ:" إِنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَاءَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، ثُمَّ أَعَادَهَا مِرَارًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ مِرَارًا" , قَالَ: يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَوَصِيَّةٌ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرما: ”لوگو! یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا کہ حرمت والا دن، پھر پوچھا کہ ”یہ کون سا شہر ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: حرمت والا شہر، پھر پوچھا کہ ”یہ مہینہ کون سا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: حرمت والا مہینہ، فرمایا: ”یاد رکھو! تمہارا مال و دولت، تمہاری جان اور تمہاری عزت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جیسے اس دن کی حرمت، اس حرمت والے شہر اور اس حرمت والے مہینے میں“، اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ دہرایا، پھر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند کر کے کئی مرتبہ فرمایا کہ ”اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ واللہ! یہ ایک مضبوطی تھی پروردگار کی طرف، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاد رکھو جو موجود ہے، وہ غائب تک یہ پیغام پہنچا دے، میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص سانپوں کو اس ڈر سے چھوڑ دے کہ وہ پلٹ کر ہمارا پیچھا کریں گے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے، ہم نے جب سے ان کے ساتھ جنگ شروع کی ہے، اس وقت سے اب تک ان کے ساتھ صلح نہیں کی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا عثمان بن حكيم ، قال: اخبرني سعيد بن يسار ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يقرا في الفجر في اول ركعة آمنا بالله وما انزل إلينا وما انزل إلى إبراهيم سورة البقرة آية 136 إلى آخر الآية، وفي الركعة الثانية آمنا بالله واشهد بانا مسلمون سورة آل عمران آية 52".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ سورة البقرة آية 136 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 52".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی پہلی رکعت میں «﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ﴾ [البقرة: 136] » آخر آیت تک اور دوسری رکعت میں «﴿آمَنَّا بِاللّٰهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران: 52] » کی تلاوت فرماتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح (نماز استسقاء پڑھانے کے لئے) باہر نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خشوع و خضوع اور عاجزی و زاری کرتے ہوئے، کسی قسم کی زیب و زینت کے بغیر، آہستگی اور وقار کے ساتھ چل رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو دو رکعتیں پڑھائیں جیسے عید میں پڑھاتے تھے لیکن تمہاری طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا حجاج ، عن الحكم ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، قال:" لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة خرج علي بابنة حمزة، فاختصم فيها علي وجعفر وزيد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال علي ابنة عمي وانا اخرجتها، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي، وقال زيد: ابنة اخي , وكان زيد مؤاخيا لحمزة آخى، بينهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزيد:" انت مولاي ومولاها"، وقال لعلي:" انت اخي وصاحبي"، وقال لجعفر:" اشبهت خلقي وخلقي وهي إلى خالتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ خَرَجَ عَلِيٌّ بِابْنَةِ حَمْزَةَ، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَلِيٌّ ابْنَةُ عَمِّي وَأَنَا أَخْرَجْتُهَا، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا عِنْدِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي , وَكَانَ زَيْدٌ مُؤَاخِيًا لِحَمْزَةَ آخَى، بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ:" أَنْتَ مَوْلَايَ وَمَوْلَاهَا"، وَقَالَ لِعَلِيٍّ:" أَنْتَ أَخِي وَصَاحِبِي"، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:" أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَهِيَ إِلَى خَالَتِهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو بھی لے آئے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں سیدنا علی، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہٰذا اس کی پرورش میرا حق ہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف، حجاج مدلس وقد عنعن والحكم لم يسمع من مقسم سوي خمسة أحاديث ليس هذا منها.
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن القعقاع بن حكيم ، عن عبد الرحمن بن وعلة ، قال: سالت ابن عباس ، عن بيع الخمر؟ فقال: كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم صديق من ثقيف او من دوس فلقيه بمكة عام الفتح براوية خمر يهديها إليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا فلان، اما علمت ان الله حرمها؟" , فاقبل الرجل على غلامه، فقال: اذهب فبعها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا فلان، بماذا امرته؟" , قال: امرته ان يبيعها، قال:" إن الذي حرم شربها حرم بيعها، فامر بها فافرغت في البطحاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، عَنْ بَيْعِ الْخَمْرِ؟ فَقَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدِيقٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ مِنْ دَوْسٍ فَلَقِيَهُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ بِرَاوِيَةِ خَمْرٍ يُهْدِيهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا فُلَانٍ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَهَا؟" , فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ عَلَى غُلَامِهِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَبِعْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا فُلَانٍ، بِمَاذَا أَمَرْتَهُ؟" , قَالَ: أَمَرْتُهُ أَنْ يَبِيعَهَا، قَالَ:" إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا، فَأَمَرَ بِهَا فَأُفْرِغَتْ فِي الْبَطْحَاءِ".
عبدالرحمن بن وعلہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے شراب کی تجارت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ قبیلہ ثقیف یا دوس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوست رہتا تھا، وہ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے شراب کا ایک مشکیزہ بطور ہدیہ کے لے کر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اے ابوفلاں! کیا تمہارے علم میں یہ بات نہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے؟“ یہ سن کر وہ شخص اپنے غلام کی طرف متوجہ ہو کر سرگوشی میں اسے کہنے لگا کہ اسے لے جا کر بیچ دو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”اے ابوفلاں! تم نے اسے کیا کہا ہے؟“ اس نے کہا کہ میں نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ اسے بیچ آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس ذات نے اس کا پینا حرام قرار دیا ہے، اسی نے اس کی خرید و فروخت بھی حرام کر دی ہے“، چنانچہ اس کے حکم پر اس شراب کو وادی بطحاء میں بہا دیا گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1579. فى سنده محمد بن اسحاق مدلس ولكنه توبع.