(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، حدثنا قتادة ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول عند الكرب:" لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السماوات والارض رب العرش الكريم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْكَرْبِ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف آنے پر یہ فرماتے تھے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ»”اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو بڑا عظیم اور بردبار ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا رب ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باد صبا (وہ ہوا جو باب کعبہ کی طرف سے آتی ہے) کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور قوم عاد کو پچھم سے چلنے والی ہوا سے تباہ کیا گیا تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، اخبرني عمرو بن دينار ، ان ابا الشعثاء اخبره، ان ابن عباس اخبره، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب، وهو يقول:" من لم يجد إزارا ووجد سراويل فليلبسها، ومن لم يجد نعلين ووجد خفين فليلبسهما"، قلت: لم يقل ليقطعهما؟ قال: لا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ أَبَا الشَّعْثَاءِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، وَهُوَ يَقُولُ:" مَنْ لَمْ يَجِدْ إِزَارًا وَوَجَدَ سَرَاوِيلَ فَلْيَلْبَسْهَا، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ وَوَجَدَ خُفَّيْنِ فَلْيَلْبَسْهُمَا"، قُلْتُ: لَمْ يَقُلْ لِيَقْطَعْهُمَا؟ قَالَ: لَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جب محرم کو نیچے باندھنے کے لئے تہبند نہ ملے تو اسے شلوار پہن لینی چاہئے، اور اگر جوتی نہ ملے تو موزے پہن لینے چاہئیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء تشریف لے گئے، پھر باہر آئے، کھانا منگوایا اور کھانے لگے اور وضو نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن هشام ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ،" انزل على النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث واربعين، فمكث بمكة عشرا، وبالمدينة عشرا، وقبض وهو ابن ثلاث وستين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعِينَ، فَمَكَثَ بِمَكَّةَ عَشْرًا، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا، وَقُبِضَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ 43 برس کی عمر میں شروع ہوا، دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں رہے، دس سال مدینہ منورہ میں اور 63 برس کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ومتنه شاذ، والصواب: أنزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن أربعين، فأقام بمكة ثلاث عشرة سنة، وأقام بالمدينة عشر سنين.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حميد ، عن الحسن ، عن ابن عباس ، قال" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الصدقة كذا وكذا، ونصف صاع برا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ كَذَا وَكَذَا، وَنِصْفَ صَاعٍ بُرًّا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں چیز کا فطرانہ یہ مقرر فرمایا اور گندم کا نصف صاع مقرر فرمایا۔ فائدہ: اس حدیث کی مزید و ضاحت کے لئے حدیث نمبر 3291 دیکھئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن البصري مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، عن ابي جمرة ، قال: سمعت ابن عباس ، قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم" صلى من الليل ثلاث عشرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو 13 رکعت نماز پڑھتے تھے، (آٹھ تہجد، تین وتر اور دو فجر کی سنتیں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني ابو جمرة ، وابن جعفر , قال: حدثنا شعبة ، عن ابي جمرة ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: إن وفد عبد القيس لما قدموا المدينة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ممن الوفد، او قال القوم؟" , قالوا: ربيعة، قال:" مرحبا بالوفد او قال: القوم غير خزايا ولا ندامى"، قالوا: يا رسول الله، اتيناك من شقة بعيدة وبيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر، ولسنا نستطيع ان ناتيك إلا في شهر حرام، فاخبرنا بامر ندخل به الجنة ونخبر به من وراءنا، وسالوه عن اشربة، فامرهم باربع ونهاهم عن اربع، امرهم بالإيمان بالله، قال:" اتدرون ما الإيمان بالله؟" , قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وان تعطوا الخمس من المغنم"، ونهاهم عن الدباء، والحنتم، والنقير، والمزفت، قال: وربما قال: والمقير، قال:" احفظوهن واخبروا بهن من وراءكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِمَّنْ الْوَفْدُ، أَوْ قَالَ الْقَوْمُ؟" , قَالُوا: رَبِيعَةُ، قَالَ:" مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ أَوْ قَالَ: الْقَوْمِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَيْنَاكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَلَسْنَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَأَخْبِرْنَا بِأَمْرٍ نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ وَنُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَسَأَلُوهُ عَنْ أَشْرِبَةٍ، فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ، قَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ؟" , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ"، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُزَفَّتِ، قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ: وَالْمُقَيَّرِ، قَالَ:" احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب بنو عبدالقیس کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کا تعارف پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”آپ کو ہماری طرف سے خوش آمدید، یہاں آکر آپ رسوا ہوں گے اور نہ ہی شرمندہ“، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ دور دراز سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے اور ہم آپ کی خدمت میں صرف اشہر حرم میں ہی حاضر ہو سکتے ہیں اس لئے آپ ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس پر عمل کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور اپنے پیچھے والوں کو بھی بتا دیں؟ نیز انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے حوالے سے بھی سوال کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟“ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پغمبر ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کو بھجوانا“، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دباء، حنتم، نقیر اور مزفت نامی برتنوں سے منع فرمایا (جو شراب پینے کے لئے استعمال ہوتے تھے اور جن کی وضاحت پیچھے کئی مرتبہ گزر چکی ہے)، اور فرمایا کہ ”ان باتوں کو یاد رکھو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی بتاؤ۔“