(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي عمر ، عن ابن عباس ، قال:" كان ينقع للنبي صلى الله عليه وسلم الزبيب، قال: فيشربه اليوم والغد، وبعد الغد إلى مساء الثالثة، ثم يؤمر به فيسقى او يهراق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَانَ يُنْقَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّبِيبُ، قَالَ: فَيَشْرَبُهُ الْيَوْمَ وَالْغَدَ، وَبَعْدَ الْغَدِ إِلَى مَسَاءِ الثَّالِثَةِ، ثُمَّ يُؤْمَرُ بِهِ فَيُسْقَى أَوْ يُهَرَاقُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کشمش پانی میں بھگوئی جاتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے آج، کل اور پرسوں کی شام تک نوش فرماتے، اس کے بعد کسی دوسرے کو پلا دیتے یا پھر بہانے کا حکم دے دیتے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کیا تو مجھے اور اللہ کو برابر کر رہا ہے؟) یوں کہو: جو اللہ تن تنہا چاہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحراء میں نماز پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور سترہ کے کچھ نہیں تھا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، الحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الحجاج ، عن الحكم ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن رواحة في سرية، فوافق ذلك يوم الجمعة، قال: فقدم اصحابه، وقال: اتخلف فاصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم الجمعة، ثم الحقهم، قال: فلما رآه صلى الله عليه وسلم، قال:" ما منعك ان تغدو مع اصحابك؟" , قال: فقال: اردت ان اصلي معك الجمعة، ثم الحقهم، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو انفقت ما في الارض ما ادركت غدوتهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فِي سَرِيَّةٍ، فَوَافَقَ ذَلِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَقَدَّمَ أَصْحَابَهُ، وَقَالَ: أَتَخَلَّفُ فَأُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ، قَالَ: فَلَمَّا رَآهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تَغْدُوَ مَعَ أَصْحَابِكَ؟" , قَالَ: فَقَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ مَعَكَ الْجُمُعَةَ، ثُمَّ أَلْحَقَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ مَا أَدْرَكْتَ غَدْوَتَهُمْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو کسی سریہ میں بھیجا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا، انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ سوچ کر آگے روانہ کر دیا کہ میں پیچھے رہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لوں، پھر ان کے ساتھ جا ملوں گا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ”آپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح روانہ ہونے سے کس چیز نے روکا؟“ عرض کیا کہ میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ جمعہ پڑھ کر ان سے جاملوں گا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر آپ زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کر دیں تو آپ ان کی اس صبح کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه عنعنة الحجاج، والحكم لم يسمعه من مقسم، إنما هو كتاب.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الحجاج ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" كتب نجدة الحروري إلى ابن عباس يساله، عن قتل الصبيان؟ وعن الخمس، لمن هو؟ وعن الصبي، متى ينقطع عنه اليتم؟ وعن النساء، هل كان يخرج بهن او يحضرن القتال؟ وعن العبد، هل له في المغنم نصيب؟ قال: فكتب إليه ابن عباس، اما الصبيان، فإن كنت الخضر تعرف الكافر من المؤمن فاقتلهم، واما الخمس، فكنا نقول إنه لنا فزعم قومنا انه ليس لنا، واما النساء، فقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج معه بالنساء فيداوين المرضى ويقمن على الجرحى ولا يحضرن القتال، واما الصبي، فينقطع عنه اليتم إذا احتلم، واما العبد، فليس له من المغنم نصيب ولكنه قد كان يرضخ لهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ، عَنْ قَتْلِ الصِّبْيَانِ؟ وَعَنِ الْخُمُسِ، لِمَنْ هُوَ؟ وَعَنِ الصَّبِيِّ، مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟ وَعَنِ النِّسَاءِ، هَلْ كَانَ يَخْرُجُ بِهِنَّ أَوْ يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ؟ وَعَنِ الْعَبْدِ، هَلْ لَهُ فِي الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ؟ قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَمَّا الصِّبْيَانُ، فَإِنْ كُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْكَافِرَ مِنَ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْهُمْ، وَأَمَّا الْخُمُسُ، فَكُنَّا نَقُولُ إِنَّهُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا، وَأَمَّا النِّسَاءُ، فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مَعَهُ بِالنِّسَاءِ فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَيَقُمْنَ عَلَى الْجَرْحَى وَلَا يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ، وَأَمَّا الصَّبِيُّ، فَيَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ، وَأَمَّا الْعَبْدُ، فَلَيْسَ لَهُ مِنَ الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ وَلَكِنَّهُ قَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُمْ".
عطاء کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ایک خط میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بچوں کو قتل کرنے کے متعلق دریافت کیا اور یہ پوچھا کہ خمس کس کا حق ہے؟ بچے سے یتیمی کا لفظ کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتوں کو جنگ میں لے کر نکلا جا سکتا ہے؟ کیا غلام کا مال غنیمت میں کوئی حصہ ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے جواب میں لکھا کہ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو اگر تم خضر علیہ السلام ہو کر مومن اور کافر میں فرق کر سکتے ہو تو ضرور قتل کرو، جہاں تک خمس کا مسئلہ ہے تو ہم یہی کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن ہماری قوم کا خیال یہ ہے کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے، رہا عورتوں کا معاملہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ عورتوں کو جنگ میں لے جایا کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوتی تھیں، اور بچے سے یتیمی کا داغ اس کے بالغ ہونے کے بعد دھل جاتا ہے، اور باقی رہا غلام تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ انہیں بھی تھوڑا بہت دے دیا جاتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم البطين ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من ايام العمل الصالح فيها احب إلى الله عز وجل من هذه الايام"، يعني: ايام العشر، قال: قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله، قال:" ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجلا خرج بنفسه وماله ثم لم يرجع من ذلك بشيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ"، يَعْنِي: أَيَّامَ الْعَشْرِ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عشرہ ذی الحجہ کے علاوہ کسی دن میں اللہ کو نیک اعمال اتنے محبوب نہیں جتنے ان دس دنوں میں محبوب ہیں“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ”ہاں! البتہ وہ آدمی جو اپنی جان و مال کو لے کر نکلا اور کچھ بھی واپس نہ لایا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم البطين ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: اتت النبي صلى الله عليه وسلم امراة، فقالت: يا رسول الله، إن امي ماتت وعليها صوم شهر، افاقضي عنها؟ قال: فقال: ارايت لو كان على امك دين اما كنت تقضينه، قالت: بلى، قال:" فدين الله عز وجل احق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَقْضِي عَنْهَا؟ قَالَ: فَقَالَ: أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَمَا كُنْتِ تَقْضِينَهُ، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ:" فَدَيْنُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے، کیا میں ان کی قضاء کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں یا نہیں؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں، فرمایا: ”پھر اللہ کا قرض تو ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ 1953 - تعليقاً، م: 1148.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی رکھوں گا۔“