(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن منصور ، عن ابن سيرين ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" سافر من المدينة لا يخاف إلا الله عز وجل، فصلى ركعتين ركعتين حتى رجع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَافَرَ مِنَ الْمَدِينَةِ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہیں تھا لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس لوٹنے تک دو دو رکعتیں کر کے نماز پڑھی (قصر فرمائی)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن سيرين لا يصح له سماع من ابن عباس.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا ابو بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: نزلت هذه الآية ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 , قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا صلى باصحابه، رفع صوته بالقرآن، فلما سمع ذلك المشركون، سبوا القرآن وسبوا من انزله ومن جاء به، قال: فقال الله عز وجل لنبيه ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 اي بقراءتك، فيسمع المشركون، فيسبوا القرآن ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك، فلا تسمعهم القرآن حتى ياخذوه عنك وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ، وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 , قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ، رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ، سَبُّوا الْقُرْآنَ وَسَبُّوا مَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، قَالَ: فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلَا تُسْمِعُهُمْ الْقُرْآنَ حَتَّى يَأْخُذُوهُ عَنْكَ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت قرآنی: «﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا﴾ [الإسراء: 110] » جس وقت نازل ہوئی ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں روپوش تھے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے تو قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے تھے، جب مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچتی تو وہ خود قرآن کو، قرآن نازل کرنے والے کو اور قرآن لانے والے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ اتنی بلند آواز سے قرأت نہ کیا کریں کہ مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچے اور وہ قرآن ہی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں، اور اتنی پست آواز سے بھی تلاوت نہ کریں کہ آپ کے ساتھی اسے سن ہی نہ سکیں، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کریں۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا داود بن ابي هند ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بوادي الازرق، فقال:" اي واد هذا؟"، قالوا: هذا وادي الازرق، فقال:" كاني انظر إلى موسى عليه السلام وهو هابط من الثنية وله جؤار إلى الله عز وجل بالتلبية"، حتى اتى على ثنية هرشى، فقال:" اي ثنية هذه؟" , قالوا: ثنية هرشى، قال:" كاني انظر إلى يونس بن متى على ناقة حمراء جعدة، عليه جبة من صوف، خطام ناقته خلبة، قال هشيم: يعني ليف، وهو يلبي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِوَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ:" أَيُّ وَادٍ هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا وَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ هَابِطٌ مِنَ الثَّنِيَّةِ وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِالتَّلْبِيَةِ"، حَتَّى أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟" , قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ، عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ، قَالَ هُشَيْمٌ: يَعْنِي لِيفً، وَهُوَ يُلَبِّي".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر وادی ازرق پر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ وادی ازرق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ٹیلے سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور وہ بآواز بلند تلبیہ کہہ رہے ہیں“، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ”ثنیہ ہرشی“ نامی جگہ پر پہنچ گئے اور فرمایا کہ ”یہ کون سا ٹیلہ ہے؟“ لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ثنیہ ہرشی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں حضرت یونس علیہ السلام کو ایک سرخ، گھنگریالے بالوں والی اونٹنی پر سوار دیکھ رہا ہوں، انہوں نے اون کا بنا ہوا جبہ زیب تن کر رکھا ہے، ان کی اونٹنی کی لگام کھجور کے درخت کی چھال سے بٹی ہوئی رسی کی ہے اور وہ تلبیہ پڑھ رہے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا اصحابنا منهم شعبة ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اشعر بدنته من الجانب الايمن، ثم سلت الدم عنها، وقلدها بنعلين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَصْحَابُنَا مِنْهُمْ شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَشْعَرَ بَدَنَتَهُ مِنَ الْجَانِبِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ سَلَتَ الدَّمَ عَنْهَا، وَقَلَّدَهَا بنَعْلَيْنِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب سے اپنی اونٹنی کا خون نکال کر اس کے اوپر مل دیا، پھر اس خون کو صاف کر دیا اور اس کے گلے میں نعلین کو لٹکا دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا يزيد بن ابي زياد ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، ان الصعب بن جثامة الاسدي اهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل حمار وحش، وهو محرم فرده، وقال:" إنا محرمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ الْأَسْدِيَّ أَهْدَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجْلَ حِمَارِ وَحْشٍ، وَهُوَ مُحْرِمٌ فَرَدَّهُ، وَقَالَ:" إِنَّا مُحْرِمُونَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صعب بن جثامہ اسدی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گورخر کی ٹانگ پیش کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ واپس لوٹا کر فرمایا کہ ”ہم محرم ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم , اخبرنا منصور ، عن عطاء ، عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عمن حلق قبل ان يذبح، ونحو ذلك فجعل، يقول:" لا حرج لا حرج".(حديث مرفوع) حدثنا هُشَيْمٌ , أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّنْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ يَذْبَحَ، وَنَحْوِ ذَلِكَ فَجَعَلَ، يَقُول:" لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو قربانی کرنے سے پہلے حلق کروا لے یا ترتیب میں کوئی اور تبدیلی ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سوال کے جواب میں یہی فرماتے رہے کہ ”کوئی حرج نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا خالد ، عن عكرمة ، عن ابن عباس رضي الله عنهما , ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عمن قدم من نسكه شيئا قبل شيء، فجعل يقول:" لا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , أنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّنْ قَدَّمَ مِنْ نُسُكِهِ شَيْئًا قَبْلَ شَيْءٍ، فَجَعَلَ يَقُولُ:" لَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو مناسک حج میں سے کسی کو مقدم کر دے اور کسی کو مؤخر؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ ”کوئی حرج نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا يزيد بن ابي زياد ، عن مقسم ، عن ابن عباس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" اللهم اغفر للمحلقين، فقال رجل: وللمقصرين؟ فقال:" اللهم اغفر للمحلقين"، فقال الرجل: وللمقصرين؟ فقال في الثالثة او الرابعة:" وللمقصرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ، فَقَالَ رَجُل: وَلِلْمُقَصِّرِينَ؟ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَلِلْمُقَصِّرِينَ؟ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ:" وَلِلْمُقَصِّرِينَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ! حلق کرانے والوں کو معاف فرما دے“، ایک صاحب نے عرض کیا: قصر کرانے والوں کے لئے بھی تو دعا فرمائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ قصر کرانے والوں کے لئے فرمایا کہ ”اے اللہ! قصر کرانے والوں کو بھی معاف فرما دے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن عبد الملك ، عن عطاء ، عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم، افاض من عرفات، وردفه اسامة، وافاض من جمع وردفه الفضل بن عباس، قال:" ولبى حتى رمى جمرة العقبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ، وَرِدْفُهُ أُسَامَةُ، وَأَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَرِدْفُهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ:" وَلَبَّى حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، اور جب مزدلفہ سے روانہ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سوار تھے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1543، م: 1286. هشيم بن بشير مدلس، لكنه توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم عن ابي بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس , ان امراة ركبت البحر فنذرت، إن الله تبارك وتعالى انجاها ان تصوم شهرا، فانجاها الله عز وجل، فلم تصم حتى ماتت، فجاءت قرابة لها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال:" صومي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ امْرَأَةً رَكِبَتْ الْبَحْرَ فَنَذَرَتْ، إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا أَنْ تَصُومَ شَهْرًا، فَأَنْجَاهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَمْ تَصُمْ حَتَّى مَاتَتْ، فَجَاءَتْ قَرَابَةٌ لَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" صُومِي".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت بحری سفر پر روانہ ہوئی، اس نے یہ منت مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے خیریت سے واپس پہنچا دیا تو وہ ایک مہینے کے روزے رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے صحیح سالم واپس پہنچا دیا لیکن وہ مرتے دم تک روزے نہ رکھ سکی، اس کی ایک رشتہ دار عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور یہ سارا واقعہ عرض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم روزے رکھ لو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1953 - تعليقاً، م: 1148، هشيم مدلس وقد عنعن، لكنه توبع.